میں یہ تصویر کافی دیر تک دیکھتی رھی
کیا یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت نہیں
موت ۔۔۔ منوں مٹی تلے ۔ خالی ھاتھ دنیا کا سب مال و دولت دنیا میں رہ جاتا ھے
جب کوئ کسی کو دفناتا ھے تو کیا ایک پل کے لیے اسے اپنی زندگی کی حقیقت سامنے نہیں آتی
وہ یہ نہیں سوچتا کچھ عرصہ کے بعد اس نے بھی یہیں آنا ھے
کتنا بھی جی لے
پچاس سال ۔ ستر اسی یا سو سال ۔ اس دنیا کو چھوڑ کر سب آسائیشوں کو چھوڑ کر مٹی بن جانا ھے
اس تصویر میں موجود سبھی لوگوں میں سے کتنے ھیں جن کی روح ایک پل کے لیے لرزی ھوگی ۔ مجھے کسی کے چہرے پہ کچھ نظر آرھا -
یہ قبر ھے مادرِ جمہوریت کی جنھیں کے نام سے نوازا گیا وہ پندرہ سال سے ایک زندہ لاش تھیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں جب بھی جمہوریت کا نام آیا تو کبھی کسی نے ان کا نام نہیں سنا ان کی قربانیوں کا زکر نہیں سنا کبھی ان کی صحت یابی کی دعا کروائ گئ ۔ جب وہ زندہ تھی تو سب ایسے بھولے ھوئے تھے جب مر گئیں تو ھر کوئ ان کے گن گا رھا ھے
کیا ھی اچھا ھو جب انسان زندہ ھو تو اس کی خوبیوں کا زکر اپنی محبت کا زکر اس کے سامنے کیا جائے اس کو نوازا جائے
مگر یہ دنیا ھے ۔۔ اور ان کا تعلق تو سیاست سے تھا لگ رھا ھے ان کی زندگی سے سیاست کی گئ اور موت پہ بھی
اِک دن پڑے گا جانا
ReplyDeleteکيا وقت کيا زمانہ
کوئی نہ ساتھ دے گا
سب کچھ يہيں رہے گا
جائيں گے ہم اکيلے
يہ زندگی کے ميلے
دُنيا مين کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
کیا ھی اچھا ھو جب انسان زندہ ھو تو اس کی خوبیوں کا زکر اپنی محبت کا زکر اس کے سامنے کیا جائے اس کو نوازا جائے
ReplyDeleteمتفق
احمر
سلام اجمل جی ویلکم ۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteجانا تو سبھی نے ھے اس دنیا سے ۔ دنیا کے میلے تو چلتے رھیں گے کسی کے جانے سے دنیا نہیں رکتی ۔
پاکستان میں جمہوریت یتیم ھو گئ ھے مادر ِ ملت کے مرنے سے ۔
سلام اور ویلکم احمر
شکریہ تنصرہ کرنے کا ۔۔ بلاگ پہ خوش آمدید
کاش اس قبر کے اندر زرداری صاحب ہوتے اور کوئی دوسرا بلاول اسے مٹی دے رہا ہوتا۔
ReplyDeleteسلام کاشف نصیر اور ویلکم
ReplyDeleteبہت سے پاکستانیوں کی آرزو حسرت میں بدلتی جا رھی ھے بہت سی کاش لگتی جا رھی ھیں کاش ---------- کاش -------- کاش
ظلم کی رسی دراز ھوتی ھے اور شیطان کی عمر اس کی آنت کی طرح لمبی ھوتی ھے