ایک دفعہ کا زکر ھے ایک چھوٹی سی ریاست تھی جسے اللہ نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا تھا لوگ غریب اور محنت کش تھے روکھی سوکھی کھا کر خوش رھتے تھے جس حال میں بھی تھے اپنے حال مین مست تھے ریاست کا بادشاہ جو کہتا اس پہ آنکھیں بند کر یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے پھر خدا کا کرنا یہ ھوا بادشاہ فوت ھو گیا
اب مسلہ تھا ریاست کون چلائے گا پھر ان میں سے ایک طاقت ور آدمی اٹھا اس نے کہا وہ سب کی حفاظت کر سکتا ھے سب نے شکر کیا کوئ تو آیا ان کی حفاظت کرنے کے لیے — وہ جو کہتا وہ اپنی عادت کے مطابق یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے انھیں دو وقت کی روٹی مل رھی تھی دن ھفتوں میں بدلے ھفتے مہینوں میں اور پھر کئ سال گزر گئے پھر پتا چلا وہ محافظ سارا شاھی خزانہ لے کر بھاگ گیا ھے
مسلہ پھر کھڑا ھوا اب کون ریاست سمبھالے گا اب تک تو شاھی خاندان حکومت کرتا آیا ھے عوام اپنے آپ کو حکومت کے قابل نہیں سمجھتے تھے رعایا کو صرف دو وقت کی روٹی چاھیے ھوتی تھی سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رھے تھے پھر سب نے مل کر فیصلہ کیا جو بھی صبح سویرے ریاست کے دارلخلافہ میں داخل ھوگا اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا
سارے شہر کی آنکھیں شہر کے دروازے بھی لگی ھوئیں تھیں صبح دیکھا تو گدھوں کا غول شہر میں داخل ھو رھا ھے سب لوگ پریشان ھو گئے اب کیا کریں مگر وہ فیصلہ کر چکے تھے ابھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا
گدھے گھاس کھا کر اپنے حال میں مست رھتے وہ عوام کی زبان اور مسائل نہیں سمجھ سکتے تھے عوام ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے ریاست میں کافی گھاس تھی سب بندر بانٹ میں لگے رھتے کس کی کتنی گھاس ھے کون کتنی گھاس کھائے گا عوام کی روٹی کی کون فکر کرتے عوام کی حفاظت کون کرتا قانون کون بناتا کون حفاظت کرتا ریاست مین بد حالی پھیل رھی تھی عوام قانون خود بناتے تھے خود ھی فیصلہ کرتے تھے سر ِ عام سزائیں دی جانے لگی مگر حکمران اپنے حال میں مست تھے ایسے میں ریاست سے باھر کے گدھوں نے بھی ریاست میںدخل اندازی شروع کر دی
دوسری ریاست کے لوگ حیران تھے انھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران کیوں بنایا ھوا ھے پھر ریاست میں الیکشن ھوئے رعایا نے پھر گدھوں کو منتخب کیا دو وقت کی روٹی کو زندگی کا مقصد سمجھنے والے عوام کچھ سمجھتے نہیں تھے
پھر ساری دنیا میں مشہور ھو گیا عوام بھی گدھے ھیں اگر گدھے نہ ھوتے تو گدھوں کو کیسے منتخب کرتے ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد انھیں سمجھ جانا چاھئیے تھا گدھے گدھے ھیں انھیں ان کے مسائل کا کوئ ادراک نہیں وہ اپنے حکمران گدھوں سے دن رات دولتیاں کھاتے چیخ و پکار کرتے خود کشیاں کرتے اپنے بچوں کو مارتے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اللہ سے گلے کرتے اپنے مسائل کے لیے پھر ان کی طرف دیکھتے جواب میں دولتیاں کھاتے تھے پھر مگر اس قوم کو ساری دنیا نے گدھے مان لیا ان کے مسائل پہ کوئ غور نہیں کرتا تھا پھر ان کا کیا وھا اللہ جانے
ھو سکتا ھے جب اس ریاست کی گھاس ختم ھوگئ ھو تو گدھوں نے اس ریاست کو چھوڑ دیا ھو کیونکہ گدھوں کو گھاس سے مطلب ھو زمین سے محبت انھیں کہاں ھوتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مسلہ تھا ریاست کون چلائے گا پھر ان میں سے ایک طاقت ور آدمی اٹھا اس نے کہا وہ سب کی حفاظت کر سکتا ھے سب نے شکر کیا کوئ تو آیا ان کی حفاظت کرنے کے لیے — وہ جو کہتا وہ اپنی عادت کے مطابق یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے انھیں دو وقت کی روٹی مل رھی تھی دن ھفتوں میں بدلے ھفتے مہینوں میں اور پھر کئ سال گزر گئے پھر پتا چلا وہ محافظ سارا شاھی خزانہ لے کر بھاگ گیا ھے
مسلہ پھر کھڑا ھوا اب کون ریاست سمبھالے گا اب تک تو شاھی خاندان حکومت کرتا آیا ھے عوام اپنے آپ کو حکومت کے قابل نہیں سمجھتے تھے رعایا کو صرف دو وقت کی روٹی چاھیے ھوتی تھی سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رھے تھے پھر سب نے مل کر فیصلہ کیا جو بھی صبح سویرے ریاست کے دارلخلافہ میں داخل ھوگا اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا
سارے شہر کی آنکھیں شہر کے دروازے بھی لگی ھوئیں تھیں صبح دیکھا تو گدھوں کا غول شہر میں داخل ھو رھا ھے سب لوگ پریشان ھو گئے اب کیا کریں مگر وہ فیصلہ کر چکے تھے ابھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا
گدھے گھاس کھا کر اپنے حال میں مست رھتے وہ عوام کی زبان اور مسائل نہیں سمجھ سکتے تھے عوام ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے ریاست میں کافی گھاس تھی سب بندر بانٹ میں لگے رھتے کس کی کتنی گھاس ھے کون کتنی گھاس کھائے گا عوام کی روٹی کی کون فکر کرتے عوام کی حفاظت کون کرتا قانون کون بناتا کون حفاظت کرتا ریاست مین بد حالی پھیل رھی تھی عوام قانون خود بناتے تھے خود ھی فیصلہ کرتے تھے سر ِ عام سزائیں دی جانے لگی مگر حکمران اپنے حال میں مست تھے ایسے میں ریاست سے باھر کے گدھوں نے بھی ریاست میںدخل اندازی شروع کر دی
دوسری ریاست کے لوگ حیران تھے انھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران کیوں بنایا ھوا ھے پھر ریاست میں الیکشن ھوئے رعایا نے پھر گدھوں کو منتخب کیا دو وقت کی روٹی کو زندگی کا مقصد سمجھنے والے عوام کچھ سمجھتے نہیں تھے
پھر ساری دنیا میں مشہور ھو گیا عوام بھی گدھے ھیں اگر گدھے نہ ھوتے تو گدھوں کو کیسے منتخب کرتے ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد انھیں سمجھ جانا چاھئیے تھا گدھے گدھے ھیں انھیں ان کے مسائل کا کوئ ادراک نہیں وہ اپنے حکمران گدھوں سے دن رات دولتیاں کھاتے چیخ و پکار کرتے خود کشیاں کرتے اپنے بچوں کو مارتے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اللہ سے گلے کرتے اپنے مسائل کے لیے پھر ان کی طرف دیکھتے جواب میں دولتیاں کھاتے تھے پھر مگر اس قوم کو ساری دنیا نے گدھے مان لیا ان کے مسائل پہ کوئ غور نہیں کرتا تھا پھر ان کا کیا وھا اللہ جانے
ھو سکتا ھے جب اس ریاست کی گھاس ختم ھوگئ ھو تو گدھوں نے اس ریاست کو چھوڑ دیا ھو کیونکہ گدھوں کو گھاس سے مطلب ھو زمین سے محبت انھیں کہاں ھوتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سبق —– اس کہانی سے یہ سبق ملتا ھے گدھے کبھی انسان نہیں بنتے چاھے انھیں حکمران بنا دیا جائے
نمبر دو ۔۔۔۔ اگر انسان گدھے بن جائیں تو انھیں عقل دینا بہت مشکل ھوتا ھے انھیں پھر ھر جگہ سے دولتیاں ھی ملتی ھیں
نمبر دو ۔۔۔۔ اگر انسان گدھے بن جائیں تو انھیں عقل دینا بہت مشکل ھوتا ھے انھیں پھر ھر جگہ سے دولتیاں ھی ملتی ھیں
نوٹ —— یہ صرف ایک کہانی ھے اگر حالات واقعات آپ کے اردگرد کے حالات سے ملتے ھوں تو یہ مماثلت اتفاقیہ ھوگی
No comments:
Post a Comment