گذشتہ دنوں اس موضوع پہ کافی لکھا گیا حجاج اکرام کو سہولیات نہیں دیں گئیں جو دینی چاھئیے حج جیسے مقدس فریضے میں بھی کرپشن کی گئ
کسی نے مجھ سے کہا کیا انھیں خدا کا خوف نہیں جو لوگ زکات صدقہ
یتیموں کا حق تو کھاتے تھے اب حج جیسے مقدس فریضہ میں بھی کرپشن کر رھے ھیں
نجانے لوگ ھر بات کا منفی پہلو کیوں دیکھتے ھیں کیا پتا ان کی نیت کیا تھی اللہ تو نیت کو دیکھتا ھے ھمیشہ اچھا سوچنا چاھئیے
ھو سکتا ھے وہ دیکھنا چاہ رھے ھوں حق حلال کی خون پسینے کی کمائ کا ذائقہ کیسا ھوتا ھے
ھو سکتا ھے انھوں نے یہ سوچا ھو اگر حجاج اکرام کو اچھی سہولیات دی گئیں آرام پہنچایا گیا تو وہ کہیں اللہ کے ذکر کو بھول کر سکون کی نیند سو جائیں
تکلیف میں انسان اللہ کو زیادہ یاد کرتا ھے وہ چاھتے ھوں سب حجاج اکرام دنیا کی آسائشوں کو بھول کر اللہ کے زیادہ قریب ھو جائیں اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کو یاد کریں
پھر آج کل رشوت لینا اور دینا کون سا گناہ ھے سب بہتی گنگا میں ھاتھ دھوتے ھیں اگر ان لوگوں نے بھی بہتی گنگا میں سے چلو بھر پانی پی لیا تو کیا ھوا
پیسوں کی برسات ھو رھی ھوتی ھے مگر کچھ لوگ شرافت کی چھتری تان کے بیٹھے ھوتے ھیں یہ کیا ھوا برسات ھو اور انسان سوکھے کا سوکھا رھے بارش کا کیا اعتبار آج ھو رھی ھے کل نہ ھو
مجھے اسی لیے غریب لوگ اچھے نہیں لگتے سوچتے بہت ھیں جو کام کر رھے ھیں غلط ھے یا ٹھیک ھے غلط کام کرتے ھوئے کوئ دیکھ نہ لے
کہیں پکڑے نہ جائیں
دنیا والے کیا کہیں گے
دنیا والوں کو کیا منہ دیکھائیں گے
نجانے کتنی سزا ملے
اگر دنیا کی سزا سے بچ گئے تو اللہ کی سزا سے کیسے بچیں گے
مجھے اپنے ملک کے نامی گرامی لگ اسی لیے اچھے لگتے ھیں ان کو دیکھ کر خوشی ھوتی ھے جو چاھتے ھیں بن داس ھو کر کر ڈالتے ھیں اچھا برا کیا سوچنا ۔ جب اللہ دے تو بندہ کیوں نہ لے
میں نے اپنی دوست " م " سے کہا کچھ لوگوں کو دیکھ کر لگتا ھے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ھے
تو وہ کہنے لگی جب سر کڑاھی میں ھے تو بندہ باہر کیوں ھے ایسے لوگوں کو تو دیکھ کر دل کرتا ھے ان کے پورے وجود کو کڑاھی میں ڈال کر پکوڑے کی طرح فرائ کر دوں
میں نے اس سے کہا انسان کا گوشت حرام ھے اتنا بڑا پکوڑا کون کھائے گا وہ بھی حرام
خیر حج بھی ھو گیا حجاج اکرام کی واپسی کا عمل بھی شروع ھو گیا حکومت کی شرمندگی کچھ لمحوں کی ھوتی ھے کیونکہ اگلے لمحے پھر کوئ ایسا واقعہ ھو جاتا ھے جس پہ زیادہ شرمندہ ھونا پڑتا ھے اب تو ڈھائ سال ھو گئے شرمندہ ھوتے ھوئے اب تو سب شرمندگی پروف ھو گئے ھیِں اب اور بھی کام ھیں جو کرنے ھیں اب کیا بندہ بس شرمندہ ھی ھوتا رھے
ویسے بھی انسان ایک ھی کام کرتے کرتے بور ھو جاتا ھے پہلے بہت سے واقعات کی مذمت کی جاتی تھی اب وہ تکلف بھی چھوڑ دیا ھے ھر واقعے کے بعد لوگوں کو پتا ھوتا تھا بھی مذمتی بیان آئے گا اب ایک ھی بیان انسان کتنی بار دے کبھی لگتا تھا یہ پرانی ریکارڈنگ چل رھی ھے پھر تھری پیس سوٹ دیکھ کر ٹائ دیکھ کر اندازہ ھوتا تھا نہیں آج کا ھی بیان ھے
دیکھتے ھیں اگلی بار کیا تبدیلی آتی ھے وزارت بدلی جائے گی یا سہولیات میں بہتری آئے گی
دیکھ لیں موضوع حجاج اکرام کی سہولیات سے شروع ھوا تھا گھوم کر وہیں پہ ختم ھو رھا پس ثابت ھوا دنیا گول ھے
No comments:
Post a Comment