کہتے ھیں روز کا آنا جانا اھمیت کھو دیتا ھے مگر کبھی کبھی آنا جانا کچھ زیادہ کم ھو جائے تو لوگ بھول جاتے ھیں ۔ لکھنے کو کچھ نہیں یہ تحریر اس لیے لکھ رھی ھوں کہ بلاگ زرا سانس لیتا رھے لوگ بھول ھی نا جائیں کہ کوئ سعدیہ بھی تھی
زندگی اور موت میں کچھ فرق تو ھونا چاھئے اگر زندگی میں چپ رھیں تو زندوں میں کون شمار کرے گا سوچا منہ کھولا جائے کچھ تو بولا جائے
انسان دنیا میں آتے ھی اپنے وجود کا اظہار چلا کر کرتا ھے اور زندگی بھر کبھی خوشی میں خوشی سے چیختا ھے غم میں دکھ سے چلاتا ھے اور جب مرتا ھے تو منہ کھولا ھوتا ھے کوئ بات منہ میں رہ جاتی ھے
رات کے وقت مرنے کی بات نہیں کرنی چاھیے کوئ بری بات بھی نہیں کرنی چاھئیے ورنہ خواب بھی برے آتے ھیں
آج سیارہ پر گئ کچھ لکھنے والے تو موسلادھار لکھ رھے ھیں کچھ لوگ چپ سادھے بیٹھے ھیں کچھ بلاگر کافی عرصے کے بعد لکھتے ھیں مگر کرتے دھماکہ ھیں دھشت گردوں جیسا دھماکہ نہیں ذوالفقار مرزا جیسا
کچھ رحمان ملک کی طرح آنے والے امن کی خبر دیتے ھیں مگر جیسے رحمان ملک کی بات کا کوئ نوٹس لیتا ایسے ھی لکھنے والے کی بات پہ بھی لوگ یقین نہیں کرتے
مجھے آج کل شاعری اچھی لگ رھی ھے کچھ اشعار پڑھ کر تو سوچتی ھوں اگر میں کوئ شہنشاہ ھوتی تو شاعر کا منہ موتیوں سے بھر دیتی - یہ نا ممکن بات ھے میں شہنشاہ کیسے ھو سکتی ھوں ۔۔۔ خیر ----
بلاگ پہ حاضری لگ گئ ۔۔ یہ ثبوت کافی ھے کہ میں زندہ ھوں ۔۔۔۔۔ یہی یاد دلانا تھا