Monday, June 24, 2013

ماضی سے حال تک





جب قدیم تہذیب عمارات کے دیکھتے ھیں تو سوچتے ھیں نجانے وہ لوگ کیسے رھتے ھوں گے - انسان نے سوچنا شروع کیا - کیا اس تہذیب میں جانا ممکن ھے پہلے انسان سوچتا تھا شاید  جادو کے زریعے ایسا ممکن ھو ۔ آج کے دور کا انسان سوچتے لگا شاید کسی سائنسی ایجاد کے زریعے ایسا ممکن ھو ۔ اسی خیال نے کہانیوں کا روپ دھارا ۔ اور کہانیاں حقیقت میں ڈھلی ۔فلموں کے روپ میں

میرے لیے ماضی میں جانا بہت آسان ھے اپنے کمپیوٹر پر کچھ بھی لکھیں جس کے بارے میں آپ جاننا چاھتے ھیں درجنوں لنک کھل جائیں گے تصاویر دنیا بھر کی ھر زبان میں معلومات ۔ جس گلی کوچے میں چاھیں اتر جائیں جی بھر کر سیر کریں مرضی کی معلومات لیں اور حال میں واپس آجائیں

دو دن قبل پاکستان کی قدیم بستوں میں جانے کا دل کیا موئن جو ڈارو جا پہنچی ایک عظیم بستی میں میرے سامنے تھی صاف سہتری آبادی کھلی گلیاں پکی انیٹوں سے بنے ھوئے درو دیوار ۔ اس دور کے استعمال ھونے والے نوادرات ۔ ایک بیل گاڑی نظر آئ ۔ ویسی ھی بیل گاڑی جیسی آج کل ھزاروں برس بعد بھی کئ علاقوں میں چلتی ھوئ نظر آتی ھے ۔ پکے مٹی کے برتن جو آج بھی پاکستان کے گاؤں میں عام نظر آتے ھیں ۔ ایک مورتی ڈانسنگ گرل کی بھی تھی

قلوپطرہ سے جھانسی کی رانی سے لے کر اب تک تہذیبوں کے عروج و زوال کے ساتھ ساتھ عورت کا مقام بھی عروج و زوال کا شکار رھا - کبھی حکمران بنی کبھی لونڈیوں سے بھی بد تر زندگی ۔ کبھی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے پہ جادو گرنی قرار دے کر جلائ گئ ۔ جب بھی کوئ تہذیب ذہنی پستی کے شکار ھوتی ھے تو عورت صرف ایک شے بن کر رہ جاتی ھے - اسلام نے عورت کو مقام دیا ۔ آج اسی مذھب کے ماننے والے عورت کی حیثیت کے بارے میں تذبذب کا شکار ھیں ۔ اور عورت کی شرافت چولہے کے پھٹنے سے چپ چاپ جل جاتی ھے

اب سفر کا رخ بدلا تو رانی کوٹ کے قلعے پہ پہنچ گئے اس کے گرد دیوارِ چین کی طرز کی دیوار بنی ھوئ ھے اس سے اندازہ ھوتا ھے اس وقت کے حالات بھی کچھ آج کل کے پاکستان جیسے تھے عوام کو حملہ آوروں سے بچانے کے لیے دیوار یا فصیل تعمیر کی گئ تھی ۔ اب پاکستانی حکومت کو بھی چاھئیے ھر آبادی کی گرد دیواریں بنا دی جائیں جیسے ماضی میں لاھور کے گرد بھی تھی ان کے کچھ نشان ابھی بھی باقی ھیں - ایک دیوار جو حملہ آوروں چوروں ڈاکوؤں سے بھی بچاتی ھے - آج کے دور کی ایک اھم ضروت محسوس ھو رھی ھے ۔ حکمرانوں نے اپنے محلوں کی فصلیں تو اونچی سے اونچی کر لی ھیں رہائشی علاقے ریڈ الرٹ زون میں تبدیل ھو گئے ھیں ۔ حکمران کی سلامتی کے ساتھ ساتھ عوام کی حفاطت بھی ضروری ھے صاحب ان کا بھی سوچیں جن کے ووٹ سے اقتدار ملتا ھے جن کے ٹیکس سے سرکار چلتی ھے اور یہ ہی بھوکے ننگے لوگ جن کا مسائل رو کر اقوام ِ عالم سے امداد طلب کی جاتی ھے ۔ انھی کی سروں پہ اقتدار کے تخت قائم ھے سر گر گئے تو تخت بھی گر جائیں گے -

ایک بات جو آج کا پاکستان دیکھنے کے بعد بڑی واضع نظر آتی ھے ترقی چند علاقوں تک محدود ھے بہت سے علاقے ابھی تک ھزاروں برس پہلے کے دور میں زندگی بسر کر رھی ھے ۔ ان کی زندگی کا مقصد دو وقت کی روٹی کے سوا کچھ نہیں ۔ اور اگر پاکستان کی ان نعمتوں کو دیکھا جائے جو اللہ نے اسے دی ھیں تو لگتا ھے اگر دنیا میں کہیں جنت ھے تو وہ یہیں ھے ۔ اور اب اسی جنت میں کچھ شیطان گھس آئے ھیں جو جنت کو جہنم بنا رھے ۔ ھم فیصلہ نہیں کر پا رھے وہ ھمارے دوست ھیں یا دشمن ۔ اسلام مہمان کو رحمت کا کہتا ھے ۔ گھر آئے مہمانوں کی گولیوں سے بھون دینے والوں کو لوگ اپنا بھائ بنا کر پیش کرتے ھیں ان کی صفائیاں دیتے نظر آتے ھیں ۔ ماضی سے حال تک ھزاروں برس کے سفر میں ایک بات واضع نظر آئ ۔ یہ علاقہ ھمیشہ حملہ آوروں کا ٹارگٹ رھا ھے ھزاروں برس سے حملہ آوروں کی گزر گاہ - حکمرانی کے  بہترین نعمتوں سے بھرا علاقہ ۔ اور غلامی اور سر کٹانے کے لیے بے زبان عوام

Tuesday, June 11, 2013

صدرِ مملکت کی تقریر ھمارے تبصرے کے ساتھ




پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا انھیں امید ھے نواز شریف توقعات پر پورا اتریں گے
پیر صاحب نے تو دو سال مذید کی خوشخبری سنا چکے ھیں امید ھے نواز شریف بھی ھماری توقعات کا خیال رکھیں گے

ھم نے جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دی ھیں
ان قربانیوں کا ذکر ھے پیچھلے پانچ سال کرتے رھے ھیں اب بھی عوام کو یاد کروا رھے ھیں عوام کہیں بھول نا جائیں ۔ گو کہ ھم نے ان قربانیوں کے بدلے کافی کچھ حاصل کر چکے ھیں ۔ مگر دل ھے کہ بھرتا نہیں

حکومت میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ھے
امید ھے میڈیا بھی ھماری آزادی کا خیال رکھے گا اور ھماری آزادی کے رستے میں نہیں آئے گا

پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے
پانچ سال تک ھم ڈرون حملوں کو مذاق سمجھتے رھے ھیں ۔ مگر سالمیت پہ آنچ نہیں آنے دی

پاکستان کی خودمختاری کا ھر قیمت میں تحفظ کیا جائے گا
پاکستان کی خودمختاری کی ایک قیمت مشرف نے وصول کی تھی اب ھمیں نئ قیمت بتائ گئ تو اس پہ سوچا جا سکتا ھے

ڈرون حملے کسی صورت میں قبول نہیں
آج تک ھم نے ڈرون نہیں دیکھا  چیل جیسا ھے ڈرون اس بارے میں پہلے بھی ایک بیان دے چکا ھوں وہ بھی ذہن میں رکھا جائے


دہشت گردی، عسکریت پسندی اور شدت پسندی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں
جب ھماری پارٹی حکومت میں تھی تو ھمیں ان باتوں کا احساس نہیں تھا اب اپوزیشن میں آکر مسائل کا احساس ھو رھا ھے جب پارٹی اقتدار میں تھی تو ھماری نظر وسائل پہ تھی ۔

ہمیں لاپتہ افراد کے مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت ہے
لاپتہ افراد کے مسلے پہ ھم نے غور نہیں کیا اب یہ حکومت اس مسلے سے نمٹے اور نامعلوم افراد ھمارا مسلہ نہیں وہ اپنی نامعلوم کاروائیوں میں مصروف ھیں انھین چھیڑنا یا ان کے بارے میں کچھ کہنا جائز نہیں

لاپتہ افراد کے بارے میں ایک کمیشن پہلے بھی کام کر رہا ہے
ھمیں کمیشن بہت پسند ھے کسی صورت میں بھی ھو ۔ ھر مسلے پہ کمیشن بنایا گیا ھے ۔ پارٹی کے جیالوں کو بھی مصروف رکھنا تھا انھیں بھی احساس رھتا ھے وہ بھی کچھ کر رھے ھیں


عوام نے ووٹ کے ذریعے غیر جمہوریت قوتوں کو مسترد کر دیا
عوام نے ھمیں بھی مسترد کر دیا لوگ بی بی کو بھول گئے بی بی نے جمہوریت کے لیے اپنی جان کی قربانی دی بھٹو تو ھر گھر سے نکل گیا ووٹ ڈالنے جیالا نہیں نکلا

ھم افغانستان میں امن اور استحکام کے خواھاں ھیں
پاکستان میں ھم امن قائم نہیں کر سکے ۔ افغانستان کا امن اور استحکام وہاں کی حکومت کا سر درد ھے ھمارا کام نہیں ۔ امن کی باتیں سننے میں خوبصورت لگتی ھیں ۔ کرتے ھوئے بھی انسان امن کا سفیر لگتا ھے

معذور افراد کو مفید شہری بنانے کے لیے انھیں قومی دھارے میں لانا ھوگا
اس پہ گذشتہ کئ برسوں سے کام ھو رھا ھے پہلے مفید شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ دھشت گردی اور ڈرون حملوں میں معذور بنایا گیا ھے اب قومی دھارے میں لانا ھوگا ۔اور قوم مختلف دھاروں میں بہہ رھی ھے

پانچ سال صدر رھنے کا اعزاز ۔ چھ بار پالیمنٹ سے خطاب کرنے کا ریکارڈ ۔ تین وزیرِ اعظم سے حلف لینے کا اعزاز پہ ھم صدرِ مملکت کو مبارک باد پیش کرتے ھیں - صدرِ مملکت کی خوش قسمتی ھے انھیں اردو پڑھنا نہیں آتی ۔ اور عوام کی خوش قسمتی انھیں انگلش نہیں آتی ۔

Sunday, June 9, 2013

نام اور کام





کہتے ھیں انسان پہ اس کے نام کا اثر ھوتا ھے اس لیے نام اچھے رکھنے چاھئیے ۔ ناموں کا انسان کی زندگی پہ کتنا اثر ھوتا ھے یہ اللہ جانے ۔ بہت سے اچھے ناموں جیلوں میں سزائیں کاٹ رھے ھیں ۔ بہت سی شہزادیاں دو وقت کی روٹی کو ترس رھی ھیں اور بہت سے نام کے فقیر محلوں میں بیٹھے ھیں


خبریں سنتے ھوئے دھیان لوگوں کے نام کی طرف گیا -
قائم علی شاہ وزیرِ اعلیٰ بن گئے بڑے بڑے برج گر گئے مگر قائم علی شاہ کچھ نہ کرنے کے باوجود ابھی تک قائم ھیں


بے نظیر کی زندگی میں مجھے ان کی سیاست سے کافی اختلاف تھا دو بار انھیں موقعہ ملا بہت کچھ کر سکتی تھیں پاکستانی عوام کے لیے مگر سیاست میں آکر سیاست کا شکار ھو گئیں مگر آج اندھے کانے راجاؤں کو دیکھ کر لگتا ھے بے نظیر واقعی ھی بے نظیر تھی

زرداری کے نام  میں زر آتا ھے اور ان کی زندگی زر کے گرد گھومتی ھوئ نظر آتی ھے اتنی دولت شاید وہ کبھی ایک ساتھ دیکھ بھی نہیں سکتے نا  استعمال کر سکتے ھیں پاکستان کے پہلے دس امیر ترین افراد میں ان کا شمار ھوتا ھے نجانے یہ ان کی خوش قسمتی ھے یا بد قسمتی ان کے پاس  دولت ان کی عزت سے زیادہ ھے

مولانا فضل الرحٰمن حکومت کے بنا جی نہیں سکتے جیسے انسان آکسیجن کے بنا نہیں جی سکتا - کہتے ھیں شکر خورے کو اللہ شکر دے دیتا ھے ۔ شکر خورے کو شکر نا ملے تو شکر خورہ خود شکر کے پاس پہنچ جاتا ھے جیسے چونٹیاں شکر کے پاس آجاتی ھے ۔ مولانا پہ اللہ کا فضل سے جو ابھی تک سیاست میں ٹکے ھوئے ھیں ۔ اب اللہ کے فضل وہ کیسے شکر ادا کرتے ھیں اور اپنی زندگی میں کتنا دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ھیں

نواز شریف کو اللہ نے تیسری بار نوازا ھے اللہ بار بار ھر کسی کو نہیں نوازتا بنی اسرائیل کو بار بار نوازا تھا ناشکری کرنے پہ سزا کے حق دار ٹھہرے تھے یہ سلسلہ تو قیامت تک جاری رھے گا کون کتنا سمجھتا ھے یہ وقت بتاتا ھے

شہباز کا نام اقبال کی شاعری میں جا بجا ملتا ھے اور شہباز شریف کا نام خبروں میں بار بار سننے کو ملتا ھے شہباز آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتا ھے اور شہباز شریف زمین پہ اڑتا پھرتا ھے ۔ رفتار تیز اور سفر آہستہ آہستہ ۔ ان کا دماغ انگلی اور زبان ایک ساتھ چلتے ھیں

فخرو بھائ کا نام آتے ھیں ھندی فلمی ٹائپ بھائ ذھن میں آتا ھے مگر ان کو دیکھ کر حیرت ھوتی ھے - لوگ تیس کے ھوتے ھیں تو انکل کہلانے لگتے ھیں یا لوگ چاچا جی کہنے لگتے ھیں اور وہ اسی کی دہائ کراس کرنے کے بعد بھی بھائ کہلاتے ھیں اور یہی ان کا فخر ھے

یوسف رضا گیلانی پاکستان کے لمبی مدت رھنے والے وزیرِاعظم ھیں شاید انھوں نے حسنِ یوسف کی کہانیاں کچھ زیادہ سنی ھیں اس لیے چار برس اپنی نوک پلک سجانے اور اپنا ظاہر نکھارنے میں گزارے حسنِ یوسف کے ساتھ کردار اور اللہ کی محبت ھونا بھی ضروری ھے

رحمان ملک ھمارے وزیرِ داخلہ رھے ھیں کچھ لوگوں کا خیال ھے وہ انھیں منشی بھی نہ رکھتے ۔ مگر اللہ فرماتا میں جیسے چاھتا ھوں بے حساب دیتا ھوں - دولت عزت حسن محبت اور لعنت بھی - معذرت مگر حقیقت ھے

ملک ریاض پاکستان کا ایک جانا مانا نام کچھ ان سے حسد کرتے ھیں کچھ رشک کچھ اچھا کہتے ھیں کچھ برا ۔ ان کی زندگی دو اور دو پانچ کرنے میں گزری ھے اور وہ بہت اچھا کر لیتے ھیں وہ ریاضی دان نہیں ملک ریاض ھیں