Tuesday, December 23, 2014

غیر اسلامی





پشاور کے دلخراش واقعے کے بعد مذمتی بیانات جاری ھوئے حکومتی  سطح پہ ھو یا    عام لوگوں کی طرف سے - پھر لوگوں نے  نیا کام شروع کیا  ہر بڑے شہر ھر بڑے چوک میں  مل کر موم بتیاں جلانے لگے ۔ یہ کیا بات ھوئ ۔ اس بارے میں بہت سے لوگوں نےسوشل میڈیا پہ لکھا اور لکھ بھی رھے ھیں ۔ موم بتیاں جلانا  کوئ اسلامی فعل نہیں یہ تو عیسائی چرچ میں جلاتے ھیں -بھئ اسلامی کام کریں آخر کیا آپ مسلمان نہیں   ۔ عیسائیوں  اور  ھندوؤں کی نقل کیوں کرتے ھیں    - یہ کیوں بھول جاتے ھیں ھم کس کی امت ھیں  - ھمارا ھر کام گواہ ھے   کہ ھم مسلمان ھیں ۔  ھم ھر کام کرنے سے پہلے سوچتے ھیں اسلام اس کے بارے میں کیا کہتا ھے 

مسلمانوں والے کام جیسے آپ پاکستان میں دیکھتے ھیں ۔ مرنے والوں کا مزار بنایا جاتا ھے پھر اس پہ دئیے جلائے جاتے ھیں ۔ یہ خالص مشرقی روایت ھے ۔ دئیے مشرق کی ایجاد ھے ۔ اگر بتی جلائیں ۔ یہ ھمارے درباروں مزاروں پہ جلائ جاتی ھیں ۔ اس سے  جنازے کی فیلنگ بھی آتی ھے  - جیسے میت قریب ھی ھو

ایسے بھی کیا جا سکتا ھے مرنے والے معصوم بچوں کی یاد میں  ایک مزار بنائیں ۔  دن رات  پھولوں کی  اور ریشمی اور قیمتی چادریں چڑھائیں ۔ویسے  آج تک پتا نہیں چل سکامزاروں پہ روزانہ چڑھائ جانی والی چادریں آخر  جاتی کہاں ھیں ۔ خیر یہ دوسرا موضوع ھے ۔ واپس مزار پہ چلیں ۔ مزار بنے گا تو لوگ منتیں مرادیں مانگنے آئیں گے ۔ قوالی بھی ھو سکتی ۔ دھمال بھی ڈالے جا سکتے ھیں ۔ مزار کی چار دیواری میں موجود کسی درخت پہ منت کے لیے دھاگے اور کپڑے بھی باندھے جا سکتے ھیں ۔ تعویذ بھی دبائے جا سکتے ھیں ۔ چرس ھیروئین کا کاروبار بھی ھو سکتا ھے ۔ چلہ بھی کاٹا جا سکتا ھے ۔ موم بتی نہیں جلائ جا سکتی ۔ یہ ایک غیر اسلامی فعل ھے ۔

یاد رھے ھم اسلامی ملک  میں رہتے ھیں یہاں قاتل کو قاتل نہیں کہتے جواز پیش کیے جا سکتے ھیں ۔ ڈرون حملوں میں ہلاک ھونے والوں کے وارثین یہ خود کش حملے کر رھے ھیں ۔ اور خود کش حملوں میں ہلاک والوں کے وارث ؟؟؟؟ وہ انسان نہیں ۔۔۔ خودکش حملوں میں اب تک کتنے بے گناہ لوگ ہلاک ھو چکے ھیں ؟؟؟ ان کے وارثین موم بتیاں جلائیں تو غیر اسلامی 

کیا کریں یہ لوگ ؟؟؟ سڑکیں بلاک کریِں ٹائر جلائیں -سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں ؟؟؟ جلا ؤ گھیراؤ  کریں ؟؟؟ پتلے بنا بنا کر جلائیں ۔ وال چاکنگ کریں ؟؟ شہر بند کر دیں ؟ پاکستان میں یہ سب احتجاج کے لیے کیا جاتا ھے ۔ مگر یہ سب لوگ ایسا کچھ نہیں کر رھے ۔ اور ان سب پہ اعتراض وہی لوگ کر رھے ھیں ۔ جو  اس واقعے کی کھل کر مذمت نہیں کر رھے ۔ درجنوں بے گناہ بچوں کا قتل غیر اسلامی نظر نہیں آرھا ۔ خود کش حملے غیر اسلامی نہیں ۔ جو اسلام کے نام پہ کیے جا رھے ھیں ۔ موم بتیاں اسلام کے نام پہ نہیں جلائ جا رھی -
 اظہار یکجہتی  کے لیے اگر یہ کیا جا رھا تو اس  پہ اتنا شور مچانے کی ضرورت نہیں  اس سے اسلام کو کوئ نقصان نہیں ھوگا کیونکہ یہ اسلام کے نام پہ نہیں کیا جا رھا صرف انسانیت کے نام پہ کیا جا رھا ھے 

Friday, December 5, 2014

توگچ البیراک



پندرہ نومبر کی شام  وہ اپنی دوستوں کے ساتھ ایک ریسٹورانٹ میں گئ  وہ کھانا کھا رھی تھی 
ایسے  میں کچھ آوازیں  سنائ دی  کچھ لڑکے لڑکیوں کو چھیڑ رھے تھے تنگ کر رھے تھے یہ آوازیں   ریسٹورانٹ کے پیچھلے حصے  سے آرھی تھیں وہ اٹھ کر دیکھنے گئ بیت الخلاء کے سامنے چند لڑکے کھڑے تھے ان کے درمیان تیرہ برس اور سولہ برس کی  دولڑکیاں کھڑی تھی  وہ دونوں وہاں سے جانا چاہ رھی تھی مگر لڑکے رستہ روک ے ھوئے تھے  اور انھیں چھیڑ رھے تھے 
اس لڑکی نے لڑکوں کو منع کیا - ان کی بحث کی آواز سن کر ریسٹورانٹ میں موجود افراد بھی آگئے جس پر وہ لڑکے چلے گئے  کچھ دیر کے بعد جب وہ لڑکی کھانا کھا کر نکلی تو پارکنگ ایریا میں وہ لڑکے کھڑے تھے اسے تنگ کرنے لگے  ایک لڑکے نے زور سے دھکا دیا  وی نیچے گر گئ سر کے  پیچھلے  حصے پہ چوٹ لگی اور وہ گرتے ھی بے ھوش ھو گئ 
اسی شور میں ریسٹوانٹ موجود لوگ باھر آئے ایمبولینس آئ  اسے سٹی ہاسپیٹل لے گئ  پولیس آئ مگر لڑکے بھاگ چکے تھے ۔ فوراً ٹی وی اور ریڈیو پہ نیوز آنا شروع ھو گئ ایک لڑکی توگچ البیراک دو لڑکیوں کو بچاتے ھوئے زخمی ھو گئ ھے ۔ درجنوں لوگ سٹی ہاسپیٹل پہنچے پتا چلا وہ کوما میں جا چکی ھے 






اگلے دن ملک بھر کے تمام اخبارات کے پہلے صفحے پہ یہی خبر تھی ٹالک شوز میں موضوع بحث توگچ  البیراک تھی ۔ جس جگہ یہ حادثہ ھوا لوگ شمع جلا رھے تھے ھسپتال کے سامنے پھولوں کے ڈھیر اکٹھے ھو گئے تھے لوگ اس کے لیے دعا کر رھے تھے 
توگچ البیراک کے والدین کا تعلق ترکی سے ھے وہ مسلمان ھیں - سی سی ٹی وی فوٹیج کے مدد سے لڑکوں کی تلاش جاری تھی ۔ اور توگچ ابھی تک کوما میں تھی ۔ دو ہفتے گزر گئے ۔ اس کے ہوش میں آنے کی امید ختم ھوتی جاری تھی اور لوگوں کی   د عاؤں میں تیزی  آتی جا رھی تھی 



28 نومبرآگیا  توگچ کی تیئسوئیں سالگرہ تھی آج ڈاکٹروں نے فیصلہ کرنا تھا اس کا سارا خاندان ہسپتال میں اکٹھا تھا اور باھر سینکڑوں لوگوں کا  ہجوم شمعیں جلائے ڈاکٹروں کے فیصلے کا منتظر ۔
توگچ کے گھر والوں کو بتایا گیا توگچ کا دماغ مر چکا ھے وہ کبھی ھوش میں نہیں آسکتی ۔ وہ صرف مشینوں کی مدد سے سانس لے رھی ھے - 
اس کے خاندان والوں نے فیصلہ کیا اگر اس کے دماغ مر چکا ھے تو پھر مشینیں اتار دی جائیں آج کے دن جب اس کی سالگرہ ھے جو اس کے دنیا میں آنے کا دن ھے وہی اس کا آخری دن بھی قرار پایا



تین دسمبر کے دن اس کی آخری رسومات تھی نمازِ جنازہ میں  ترک اور عرب مسلمانوں کے علاوہ ھزاروں لوگوں کے علاوہ صوبائ وزیر بھی شامل ھوئے ترکی کے جھنڈے  کے ساتھ جرمنی کا جھنڈا بھی لہرا رھا تھا - اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا ۔ جس طرح کسی قومی  ہیرو کو دفنایا جاتا ھے 




اسے دھکا دینے والا  اٹھارہ سالہ مجرم پکڑا جا چکا ھے  -ابھی اس کا نام میڈیا پہ بتایا نہیں گیا- توگچ اس دنیا سے جا چکی ھے اس کے استاد  کے خیال ھے  توگچ کو  اعلی ترين سول ايوارڈ ’فيڈرل کراس آف ميرٹ '  دیا جانا چاھئیے وہ اس کی حقدار ھے اس  پيٹيشن پر  اب تک ايک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد دستخط کر چکے ہيں۔




Wednesday, December 3, 2014

چشمِ تصور سے

جنت اور دوزخ کا ذکر ھماری روز مرہ  زندگی میں آتا رھتا ھے ۔ پاکستان میں تو بار بار آتا ھے کون جنتی ھے کون جہنم کا حقدار ھے ۔ زرا تصور کریں ۔ سب پاکستانی جنت میں چلے جائیں تو کیا ھوگا ۔ چشم تصور سے نظارہ کریں  ۔ سب پاکستانی جنت میں گھوم رھے ھیں    - میں نے  تصور کیا  ۔ آپ بھی نظارہ کریں  - وہاں کیا دیکھا 

ایک مولانا  دودھ اور شہد کی نہر کے کنارے بڑی گہری سوچ میں میں گم بیٹھے تھے کسی نے پوچھا 
مولانا آپ کن سوچوں میں گم ھیں اب تو ماشاء اللہ جنت میں آگئے ھیں 
مولانا نے  ٹھنڈی آہ بھر کر کہا 
  دودھ اور شہد کی نہر  کے ساتھ اگر ڈیزل کی نہریں بھی ھوتی تو مزا آجاتا

ایک صاحب پریشان  پھر رھے تھے 
اتنا رزق  بکھرا پڑا ھے اور کوئ سوئس بنک نہیں 

کچھ لوگ حوروں کی آوازپہ بھی سہم  رھے تھے  انھیں بوٹوں کی  چاپ سنائ دے رھی تھی 

کچھ لوگ حوروں  کے درمیان شیر کو ڈھونڈتے ھوئے پائے گئے 

ھجوم میں   ایک نوجوان نے زور سے نعرہ لگایا 
زندہ ھے بھٹو زندہ ھے  
ایک صاحب نے زوردار تھپڑ جڑ دیا 
یہاں سب زندہ ھیں  اگر بھٹو بھی زندہ ھے تو اتنا شور مچانے کی ضرورت کیا ھے 

ایک صاحب ایک بڑے مجمع سے خطاب کر تے ھوئے کہہ رھے تھے 
وہ پیدائشی جنتی ھیں ۔ عالم رویا میں وہ پہلے بھی یہاں آ چکے ھیں   کئ برس تک یہی کے  بسنے والے لوگوں سے علم  حاصل کرتے رھے ھیں

کچھ لوگ ناراض بیٹھے تھے ان کا کہنا تھا ۔ وہ دنیا سے ھجرت کر کے یہاں آئے ھیں وہ مہاجر ھیں ان کے لیے یہاں مہاجر صوبہ ھونا چاھئیے 

ایک صاحب ضد کر رھے تھے ۔ انھیں جب تک فون نہیں دیا جائے گا وہ کسی سے بات نہیں کریں گے

ایک صاحب زور زور سے بول رھے تھے کہہ رھے تھے 
چند ماہ میں وہ جنت میں میٹرو چلا دیں گے ۔ جگہ جگہ انڈر پاس اور پل  بنوائیں گے 
ایک صاحب نے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ھوئے کہا 
بالکل یہاں موٹر وے بھی بنائ جانی چائیے اور ایک ایٹمی دھماکہ بھی ھونا چاھئیے 

وہیں کچھ لوگ  اکٹھے  بیٹھے تھے پتا چلا وہ دھرنے پہ بیٹھے ہیں   - اورتبدیلی لانا چاھتے ھیں 

ایک مولوی بیان دے رھے تھے ۔ جہنم میں سبھی گہنگار بد کردار اور اللہ نے نافرمان لوگ ھیں وہاں خودکش حملہ کرنا عین جائز ھے 

وھیں پہ  پاکستان کے غریب عوام  سہمے ھوئے بیٹھے تھے   حسرت سے ھر چیز کو دیکھ  رھےتھے  انھیں لگ رھا  تھا یہ سب رزق صرف ان کے دیکھنے کے لیے ھے  ان پہ ان کا کوئ حق نہیں   شاید  دنیا   کی طرح ان کی زندگی یہاں بھی ویسی ھی ھو گی 

تھر کے علاقے کے لوگ  پانی کی آبشار کے  قریب حیرت ذدہ  بیٹھے تھے  
اتنا زیادہ پانی    اور اتنا صاف پانی 
یقیناً  یہ جنت ھی ھے 

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

فارغ دماغ کی کارستانی کہہ سکتے ھیں ۔ انسان بہت کچھ دیکھتا ھے پڑھتا ھے سنتا ھے اور سوچتا ھے - یہ تحریر ایسے ھی سوچتے ھوئے لکھی  اگر پڑھتے ھوئے آ پ  کی سوچ  کسی طرف چلی جائے اور اگر کسی کی کسی سے کوئ مماثلت نظر   آئے تو محض اتفاقیہ ھوگی بندی کا اس سے کوئ تعلق نہیں 

Thursday, September 4, 2014

میرے فیس بک پہ لکھے گئے سسٹیٹس

-------------------------------

میرے فیس بک پہ لکھے گئے سسٹیٹس سوچا اپنے بلاگ پہ بھی شئیر کو دوں

------------------

پارلیمنٹ کے ممبران کو چوروں کی طرح پارلیمنٹ میں داخل ھونا پڑ رھا ھے 
ھاھاھا
چور پارلیمنٹ میں آج کل چوروں کی طرح داخل ھو رھے ھیں 
تبدیلی آئے گی نہیں ۔ تبدیلی آ گئ ھے

-------------------------------------------------------------------------------------


چین کے صدر کا دورہ ملتوی ۔۔۔۔ پہلے عوام کو آدھی روٹی ملتی تھی ۔ اب حکمرانوں کو بھی آدھی روٹی کم ملے گی ------ افسوس صد افسوس

------------------------------------------------------------------------------------------

میری شریف خاندان سے مودبانہ گزارش ھے میٹرو بس پہ لاھور کی سیر کریں - اور اپنے پاکستانی پیرس کے نظارے کریں ۔ اور پھر اپنی تقاریر میں پیرس کا حوالہ دینا چھوڑ دیں ۔

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

              
ھمارا آئین بہت مقدس ھے اس لیے پڑھنے اور عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔۔ جیسے قرآن جز دانوں میں سجا کر رکھتے ھیں - مگر کوئ ایک لفظ بھی کہے تو مرنے مارنے کے لیے تیار ھو جاتے ھیں
   -----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------                                                 
فوجی ریٹائر ھو سکتے ھیں ڈاکٹر انجئینر ریٹا ئر ھو سکتے ھیں تو سیاست کیوں نہیں - اگر پرانے پاپی جان چھوڑ جائیں تو پاکستان میں اچھی تبدیلی آ سکتی ھے

-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


یورپ میں موٹر وے کا جال بیچھا ھوا ھے ۔ مگر کوئ نہیں بتا سکتا یہ کس کے دور حکومت میں بنائ گئ تھی ۔ نہ کبھی کسی سیاسی پارٹی نے بیان دیا ۔ عوام کی چیز عوام کے پیسوں سے بنائ جائے تو احسان کیسا ؟
-------------------------------------------------------------------------------------------------


نواز شریف زیادہ وقت سر جھکائے منہ کے سامنے پیپر رکھے شرماتے رھے - شاید وہ ممبران کی تقاریر میں ہونے والے جھوٹے دعوؤں پہ شرما رھے تھے ۔ آئین کے پاسداری جمہوریت کے لیے جان قر بان کرنے کی باتیں ۔ جو صرف باتیں تھی
------------------------------------------------------------------------------------------------

زرداری اسلام آباد تشریف لائیں گے ۔ اور بتائیں گے دن رات گالیاں کھا کر کیسے پانچ سال پورے کیے جا سکتے ھیں
------------------------------------------------------------------------------------------------

جب اللہ عقل بانٹ رھا تھا ۔۔۔ پاکستانی قوم اس وقت لیڈر ڈھونڈے نکلی ھوئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تب سے اب تک تلاش میں ھے --------

---------------------------------------------------------------------------------------------------

پاکستان میں تبدیلی سانپ اور سیڑھی کے کھیل جیسی ھے ننانوے پہ آکر پھر ایک پہ آجاتی ھے ۔۔۔۔

--------------------------------------------------------------------------------------------

پاکستان میں سب سے آسان کام ملک جام کرنا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک چلانا ۔۔۔ ھونہہ ۔۔ وہ کسی کے بس کی بات نہیں

-------------------------------------------------------------------------------------------------

Wednesday, September 3, 2014

تم بھی کتنے پاگل ھو

تم بھی کتنے پاگل ھو
بے ضمیر لوگوں سے
امیدیں رکھتے ھو کیوں امیدیں رکھتے ھو
ایمان بیچ دیتے ھیں
دنیا کو پانے میں
ضمیر بیچ دیتے ھیں
فائدہ اٹھانے کو
نام اللہ کا لے کر
فرعون بن       جاتے ھیں
تم بھی کتنے پاگل ھو
چور اور لٹیروں سے
انصاف کی توقع ھے
کیوں یہ سمجھتے ھو
کیا تم سمجھتے ھو
 جب بھی یہ مل کر بیٹھے گے
تمہارا یہ سو چیں گے
تم بھی کتنے پاگل ھو
خاک پہ رھتے ھو
وہ محلوں کے باسی ھیں
تم کو وہ اپنے برابر لائیں گے ؟
تم یہ سمجھتے ھو
کیوں یہ سمجھتے ھو
پاؤں کی جوتی کو سر پہ بیٹھائیں گے ؟
تم کو تمہارا حق یہ دلائیں گے ؟؟
تم بھی کتنے پاگل ھو
تم بھی کیسے پاگل ھو
بار بار تم
دھوکےکھاتے ھو
پھر بھی ھمیشہ  تم
بے وقوف بن جاتے ھو
تم انھیں  کیا سمجھتے ھو
وہ تمہیں سمجھ پائیں گے ؟؟
تمہارے مسلے یہ سلجھائیں گے ؟؟؟
نجانے تم نے کیا کیا سپنے سجائیں ھیں
خاک پہ رہ کر کتنے محل بنائیں ھیں
تم کیوں نہیں سمجھتے
سامنے یہ تمہارے انسان  بن کر بیٹھے ھیں
 فرعون ھیں زمانے کے
تم یہ نہیں سمجھتے
کیوں نہیں سمجھتے
تم بھی کتنے پاگل ھو
تم بھی کتنے پاگل ھو


سعدیہ سحر 

Tuesday, September 2, 2014

فیس بک سٹیٹس


ضمیر عجیب چیز ھے اکثر سویا رھتا ھے ۔۔۔۔ اور جب جاگتا ھے تو دوسروں کے بارے میں سچ بولنا شروع ھو جاتا --ھے ---------- مگر ------- اپنے بارے میں زبان پھر بھی نہیں کھولتا ------



پی ٹی وی پہ حملہ کرنے والوں کو سزا کے طور پہ پی ٹی وی کی نشریات چوبیس گھنٹے دیکھائ جائیں------------------



تمام ٹی وی چینلز والے اپنا اپنا سچ بیچ رھے ھیں ........---------------



اگر آپ گملا ھیں توکو ئ نہیں توڑے گا ۔ اگر انسان ھیں تو کوئ بھی سر پھوڑ سکتا ھے--------------





اے قائد ھم شرمندہ ھیں - بزرگوں کا بنایا ھوا پاکستان پسند نہیں آیا - اس لیے پرانا توڑ کر نیا بنانے کی کوشش کر رھے ھیں ---------------------------------





اگر اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ھوتی تو - ھر پارٹی کے کارکن اپنے اپنے لیڈر کو دن رات سجدے کرتے------------------------------------------






پاکستانی عوام کا حال سسپنس مووی دیکھتے ھوئے جو حال ھوتا ھے ویسا ھے ۔ اینڈ میں کیا ھوگا------------------------------------------------







مشرف کے جانے پہ جن لوگوں نے بھنگڑے ڈالے تھے ۔۔ اب بوٹوں کی آواز سن کر دھمالیں ڈالنے کے لیے بیتاب ھیں .........------------------------------------






پہلے کبھی ھلاکو تھا کبھی شداد کبھی فرعون کبھی شاہ رنگیلاکبھی میر جعفر کبھی میر صادق ۔۔۔۔۔۔۔ اور ھم اس زمانے میں پیدا ھوئے ھیں جہاں سبھی ایک وقت میں موجود ھیں
---------------------------------------------------------





-----------آج کے حالات ۔۔۔۔۔۔ اگر خود کو سچا ثابت کرنے ھے تو دوسرے کو گالی دیں رونہ لوگ آپ کو کمزور سمجھیں گے




چند اقتدار کےحریص لوگ ۔۔۔۔۔۔۔ اور لاکھوں دولے شاہ کے چوھے

---------------------------------------------



پاکستان میں لیڈر پیدا نہیں ہوتے بنائے جاتے ھیں -----------------------------------




جمہوریت کو خطرہ ھے------ملک کی دولت کے ساتھ اسے بھی سوئس بنک میں جمع کروا دیں
------------------------------------------------------------