Monday, December 21, 2009

میرا آئیڈیل ——- زرداری

بے نظیر زندہ تھی تو بس وہی دکھتی تھیں ان کے پیچھے ھاتھ باندھے کھڑے زرداری پہ کبھی نظر ھی نہیں پڑی تھی بے نظیر کی زندگی میں میں انھیں مسٹر بے نظیر کہا کرتی تھی بے نظیر کی وفات کے بعد انھوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا اور سیاست میں ایسا قدم رکھا کہ ساری قوم کو کھپا دیا

پہلی بار مجھے جس بات نے ان کی طرف متوجہ کیا وہ وعدے حدیث نہیں ھوتے کا بیان تھا میں سوچا واؤ پکا ایمان والا مسلمان ھے صحیح بات ھے حدیث حدیث ھے اب زرداری کوئ کافر تو نہیں جو ایک عام بات کو حدیث کا درجہ دے دے

پھر نواز شریف کی بانھوں میں بانھیں ڈالے گانے گاتے ھوئے ایک ایک قدم آگے بڑھے جیسے شطرنج کا کھلاڑی اپنی چال چلتا ھے ایک ایک کر کے پرانے پیپلز پارٹی کے ممبرز کو ھٹاتے ھوئے خود کو ھر مقدمے سے بری کرتے ھوئے صدر کی کرسی پہ بیٹھے ان کے ساتھ ھی ملکی معیشت بھی بیٹھ گئ

خیر ان سب باتوں سے اندازہ ھوا وہ ایک زبردست سیاست دان ھیں بے نظیر کی قد آور شخصیت کے پیچھے ان کی شخصیت چھپی ھوئ تھی وہ اب کھل کر سامنے آرھی ھے ان کے بہت سے دشمن ھیں مگر وہ خاموشی اپنی چال چلتے ھیں اور اپنے قصرِ صدرات میں رھتے ھیں کسی سے کچھ نہیں کہتے جب ملک میں کوئ مشکل ھوتی ھے تو غیر ملکی دوروں پہ چلے جاتے ھیں یہ بہت ھی اچھی عادت ھے میں بھی ایسے کرتی ھوں جب کہیں کوئ لڑائ ھونے لگتی ھے چھپکے سے وہاں سے کھسک جاتی ھوں

اب جو جلتے ھوئے ملک پہ انھوں نے اجرک پھینکی ھے وہ قابل ِ تعریف عمل ھے زرداری میرے آئیڈیل ھیں دل کرتا ھے ان کا پتلا بنا کر اپنے گھر کے لان میں لگوا دوں اور دن رات دیکھا کروں

کالمی لوٹے

میرے جیسے کتنے لوگ ھوں گے جو پاکستان سے دور ھیں ملکی حالات جاننے کے لیے صبح صبح مختلف اخبارات کے کالم کا مطالعہ کرتے ھیں میری طرح وہ بھی سمجھتے ھیں کالم نگار جو بھی کہہ رھا ھے سچ کہہ رھا ھے اس کی ھر بات پہ یقین کر لیتے ھیں جس سیاست دان کے بارے میں لکھا جاتا ھے وہ ایمان دار ھے لوگ اسے ایسا ھی سمجھنے لگتے ھیں

کچھ کالم نگار سیاستدانوں کے خاموش سفیر ھوتے ھیں سیاستدانوں کی سیاست کا دارومدار کالمی لوٹوں کے کالم پر ھوتا ھے پہلے میں سمجھتی تھی صرف سیاست میں ھی لوٹے ھوتے ھیں مگر جب سے اخبارات کا مطالعہ شروع کیا مختلف کالم نگاروں کو بغور پڑھنا شروع کیا تو احساس ھوا ادب کی دنیا میں بھی لوٹے وافر مقدار میں پائے جاتے ھیں لوٹے چند ایک ھیں جو وقت بدلنے پہ اپنا سیاسی لیڈر بدل لیتے ھیں

میں اکثر سوچتی تھی یہ سیاسی لوٹے اتنا عرصہ سیاست میں کیسے ٹکے رہ سکتے ھیں اس کی ایک ھی وجہ ھے سیاسی لوٹوں کا سیاست کا سفر کالمی لوٹوں کی بدولت چلتا ھے جن کی بنا پر کالمی لوٹوں کو نوازا جاتا ھے جو وہ کہتے ھیں سچ کہتے ھیں اور ڈنکے کی چوٹ پہ کہتے ھیں وہ اور بات ھے وقت کے ساتھ ان کا سچ بدل جاتا ھے اور سچ بولنے کی قیمت بھی

ایک کالم نگار شروع میں مشروف کو ایک مسیحا کہتے تھے جنھو ں نے اتنے مشکل وقت میں ملک کو سہارا دیا پاکستان کو مشکل وقت سے نکالا اپنی جان کی پرواہ کیے بنا اس وقت پاکستان کو ایسے ھی کسی بہادر سیاسی لیڈر کی ضرورت تھی پھر وقت نے کروٹ لی بے نظیر کی واپسی ھوئ تو ان کا کالم آیا پاکستان کی تقدیر بے نظیر — بے نظیر کے بعد وہ نواز شریف اور زرداری کے گن گانے لگے کیونکہ انھیں نہیں پتا تھا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا –

زرداری کے صدر بننے کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا نھیں پہلے ھی احساس تھا زرداری ایک بہترین لیڈر ھیں بہترین سیاست دان ھیں انھوں نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا جب پاکستان کے وجود کو خطرہ تھا اگر زرداری یہ نعرہ نہیں لگتےتو پتا نہیں پاکستان کا کیا حال ھوتا پاکستان کے صدر بننے کا حق دار ان سے بڑھ کر کوئ نہیں ھو سکتا انھیں پاکستان کے حالات بدلتے ھوئے نظر آنے لگے جو ایک آمر کے دورِ حکومت میں نا گفتہ بہ ھو چکے تھے

پھر مشرف کے احتساب کا نعرہ بلند ھوا تو ان کے کالم اِحتساب پہ تھے احتساب بہت ضروری ھے ایک ایسے شخص کا جس نے ملک کی بیٹی کو دشمنوں کے حوالے کیا معصوم فرشتوں جیسی بچیوں کا جلا دیا ایک سفاک انسان کو ایسی سزا ملنی چاھیے تو آنے والوں کے لیے عبرت ھو

کل ان کا ایک کالم پڑھا نواز شریف کی خاموشی میں انھیں ایک بہت ھی زہین انسان چھپا ھوا نظر آرھا ھے بصیرت سے بھرپور جس نے اتنے سالوں میں بہت کچھ سیکھا ھے

یہ دنیا کے لوگ کتنے رنگ بدلتے ھیں سامنے کی تصویر بدلتے ھی ان کی سوچ بدل جاتی ھے پاکستان میں لوگوں کے ایمان ھی نہیں قلم بھی بک جاتے ھیں اب کس پہ یقین کریں کس پہ نہ کریں


چھ سالہ بچے کی معلم کے ھاتھوں موت

ابھی ٹی وی پہ خبر دیکھی ایک چھ سالہ بچے کو معلم نے تشدد کر کے مار دیا اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنا سبق یاد نہین کیا تھا کیا یہ اتنا بڑا قصور ھے جس کی سزا میں ایک چھوٹے سے بچے کے ڈنڈے گھونسے لاتیں مار مار کر جان سے ھی مار دیا جائے

بچے کے ایک ساتھی سے کہا گھر والوں سے کہے کہ بچے کو خون کی الٹی آئی تھی جس کی وجہ سے اس کی موت ھو گئ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ھو چکے ھیں کئ بار قرآن کی تعلیم دینے والے مولوی حضرات کے بارے میں پتا چلا وہ بچوں سے زیادتی کرتے رھے ھیں بہت کم واقعات میڈیا کے سامنے آتے ھیں جو واقعات سامنے آتے ھیں انھیں بھی نظر انداز کر دیا جاتا ھے

کیا یہ واقعات اس قابل ھیں کہ انھیں نظر انداز کر دیا جائے ؟؟؟

کیا کسی غریب بچے کی جان کی کوئ حیثیت نہیں ؟؟؟

کسی معلم کی قابلیت چیک کرنے کا کیا معیار ھے اگر کسی مولوی یا کسی ملا کے بارے میں کچھ کہا جاتا ھے تو بہت سے حضرات لٹھ لے کر کھڑے ھو جاتے ھیں ان کا فرمانا ھے یہ مولوی نہ ھوتے تو کون پیدائش کے بعد کان میں آذان دیتا کون قرآن کی تعلیم دیتا کون مسجدوں میں اذان دیتا کون مرنے کے بعد جنازہ پڑھاتا پھر بھی لوگ ان کی عزت نہیں کرتے

کیا کوئ بھی قرآن پڑھانا شروع کر دے اس کو چیک کرنا ضروری نہیں اکثر ایسے لوگوں کی بہت تعظیم کی جاتی ھے اگر ان کے بارے میں کوئ بات سنیں بھی تو کہا جاتا ھے وہ تو قرآن پڑھاتے ھیں نیک انسان ھیں

کیا سب پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار کرنا چاھیے جب کوئ ایسا واقعہ ھوتا ھے وقتی شور اٹھتا ھے مگر کیا کچھ بھی نہیں جاتا اس خبر پہ بھی ایک دن تبصرہ کیا جائے گا ٹی وی والے چند بار دیکھائینگے پھر نئ خبروں میں یہ خبر بھی گم ھو جائے گی

معذرت میں ھرمولوی یا ھر داڑھی والے کو قابل ِ احترام نہیں سمجھتی اسلام دل میں ھوتا ھے داڑھی میں نہیں

کیا یہ میرا خواب تھا ؟؟

آج ایک نئ زرعی یونیورسٹی کا افتتاح کرنے وزیرِ اعظم تشریف لا رھے تھے سب کے چہرے خوشی سے دمک رھے تھے وزیرِاعظم سادہ شلوار قمیض زیبِ تن کیا ھوا تھا کسی نے ان سے پوچھا پہلے وزیرِاعظم زیادہ ترتھری سوٹ پہنتے تھے تو انھوں نے مسکرا کر کہا شلوار قمیض پاکستان کا قومی لباس ھے اور مجھے اس لباس سے اچھا کوئ لباس نہیں لگتا مجھے اپنے پاکستانی ھونے پہ فخر ھے چھ مہینوں میں یہ چوتھی زرعی یونیورسٹی تھی جس کا افتتاح ھورھا تھا زریرِاعظم فرما رھے تھے پاکستان ایک زرعی ملک ھے یہ بات ھمارے لیے قابل ِ شرم ھے کہ ایک زرعی ملک کے رھنے والوں کو دو وقت کا کھانا نہیں مل رھا یہ ٹھیک ھے اب حالات پہلے جیسے خراب نہیں ابھی زراعت کے میدان میں ھمیں بہت تحقیق کی ضرورت ھے یہ بہت ھی خوش آئند بات ھے غیر ممالک میں بہت سے پاکستان جو اس میدان میں کام کر سکتے ھیں وہ ملک واپس آئے اور ملک کی خدمت کر رھے ھیں

کھانے میں صرف دو کھانے اور سادہ پانی تھا ایک اخباری رپورٹر نے کہا ھم سمجھے تھے وزیرِاعظم کے ساتھ کھانا بہت پر تکلف ھوگا تو انھوں نے مسکراتے ھوئے کہا قومی خزانہ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا وہ بہت کم بات کر رھے تھے زیادہ لوگوں کو سن رھے تھے ان کی رائے جاننا چاہ رھے تھے وہ اپنی چھوٹی سی کار میں آئے تھے

یہ انقلاب اس وقت آیا جب ملک میں ذخیرہ اندوزی رشوت بے ایمانی قومی خزانے کی لوٹ مار دھشت گردی بڑھ گئ تھی تو عدالت نے انقلابی فیصلے کیے ملکی خزانے کو لوٹنے والوں ذخیرہ اندوزوں کی سخت سزائیں دیں جب ایک روٹی چوری کرنے والے کو سزا ھو سکتی ھے تو بجلی چوری کرنے والوں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ھے چوری چاھے کسی چیز کی بھی ھو چوری ھوتی ھے ملک کے بہت سے نامی گرامی لوگوں کو عمر قید اور قید با مشقت کی سزائیں ھوئیں قومی خزانی لوٹنے والوں کے ھاتھ کاٹے گئے غلط پالیسی بنانے والوں سابق حکمرانوں اور ذخیرہ اندوزوں اور رشوت لینے والوں کو سرِ عام کوڑے مارے گئے اس کے بعد کوئ بھی عام آدمی غلط کام کرنے سے پہلے سوچنے لگا اگر اتنے بڑے لوگوں کو سزا ھو سکتی ھے تو ھمیں کون معاف کرے گا صدر صاحب نے فارم ھاؤس کلچر ختم کیا تمام زمینیں غریب کسانوں میں تقسیم کی آٹھویں تک تعلیم لازمی قرار دی اس کے بعد جتنے بھی ذھین طالب علم ھیں اس کی تعلیم کا خرچہ حکومت برداشت کرے گی سارے ملک میں ایک تعلیمی نظام لازمی قرار دیا ایک وزیر ھو یا ایک غریب مزدور کا بیٹا اسے ترقی کے ایک سے مواقع ملنے چاھیے – چھوٹی صنعتوں کو فروغ کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے غریب مزدوروں اور کاریگروں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا محنت کش کسی بھی ملک کے لیے ریڈھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتے ھیں

چند سالوں میں ملک کے حالات تیزی سے بدلے تھے میں نے اپنے کمرے سے شاہ رخ اور بریڈ پٹ کی تصویریں اتار کر اپنے وزیرِ اعظم اور صدر کی تصاویر لگا دیں ھمارے اصل ھیرو تو یہی ھیں ایک دم میری آنکھ کھولی ٹی وی خبر آرھی تھی پشارو میں دھماکہ درجنوں زِخمی اور بہت سے لوگ مارے گئے نیچے بریکینگ نیوز چل رھی تھیں ٹرین پٹری سے اتر گئ – ایک خاندان کے پانچ لوگوں نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی ڈاکٹروں کی لاپرواھی سے تین سال کی بچی اپنی زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھی میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں کیا یہ خواب ھے یا حقیقت — اگر حقیقت ھے تو بہت خوفناک حقیقت ھے —- کیا وہ میرا خواب تھا ؟ کیا وہ ھمیشہ خواب رھے گا — کیا وہ کبھی حقیقت بن سکے گا ؟؟ یہ میرا ھی نہیں سولہ کروڑ عوام کا سوال ھے

وہ زخم آج بھی رستا ھے

آخری وقت تک دادی جان کے لبوں پہ ایک ھی بات تھی میرا بشیر آئے گا تایا بشیر فوج میں تھے مشرقی پاکستان میں تعینات تھے 1971 کے بعد ان کا کچھ پتا نہیں چلا وہ کہاں ھیں ان کی فیملی تھی بیٹی اور بیٹا تھا کسی نے کہا وہ جنگ میں شہید ھو گئے تھے

مشرقی پاکستان بہت سے لوگوں کو مارا گیا زندہ جلایا گیا وہ اور ان کی فیلمی زندہ تھی یا نہیں مگر دادی جان نے انھیں مرنے نہیں دیا کوئ دن ایسا نہیں ھوتا تھا جب ان کا زکر نہیں ھوتا تھا مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ھوا کہ مین ان سے نہیں ملی تھی ان کے بچوں کو میں نے نہیں دیکھا تھا ایسے لگتا تھا جیسے میرا بچپن ان کے ساتھ کھیلتے ھوئے گزرا ھو رات کو جب دادی جان کے پاس سوتی تھی تو تایا بشیر کی باتیں شروع ھوجاتیں وہ بچپن میں کیسے تھے ان کو بچے کیا کرتے تھے جب وہ گئے تھے اب کے بیٹے کو بولنا بھی نہین آتا تھا دادای جان حساب لگاتیں وہ اب کتنے بڑے ھو گئے ھوں گے کون سی کلاس میں پڑھ رھے ھونگے دادی جان نے جو خاکہ بنایا تھا بچپن میں میں‌ سڑک پہ چلتے ھوئے ان لوگوں کو کھوجا کرتی تھی

ایک بار گھر بیچنے کی بات ھوئ تو دادی جان نے یہ کہہ کہ انکار کر دیا تایا بشیر کو اس گھر کا پتا ھے انھوں نے اپنے بچوں کو اسی گھر کا پتا دیا ھو گا وہ واپس آئیں گے تو کیا کریں گے دادی جان کی آس کبھی ٹوٹی نہیں تایا جان نے جاتے ھوئے کہاں تھا اماں میں جلد ھی بچوں کے لے کر آؤں گا اور دادی جان مرتے دم تک انتظار کرتی رھیں

ان کی وفات کے بعد میں پتا چلا تایا بشیر میرے سگے تایا نہیں تھے وہ دادی جان کی مرحومہ بہن کے بیٹے تھے جنھیں مرتے وقت دادی جان کی گود میں دیا تھا اور وعدہ لیا تھا وہ انھیں اپنے بچوں کی طرح پیار کریں گی انھوں نے ااپنا وعدہ نبھایا اپنے بچوں سے بڑھ کر نہ صرف خود پیار کیا بلکہ وہ پیار اپنے آنے والی نسل میں بھی منتقل کیا

میرا سارا بچپن ان کے ساتھ گزرا دادای جان کی آنکھوں سے ھم نے انھیں شرارتیں کرتے جوان ھوتےدیکھا دادای جان کے ساتھ ھم نے بھی ان کا انتظار کیا – کسی اپنے سے بچھڑنے کا دکھ کیا ھوتا ھے وہ میں جانتی ھوں دادای جان کو میں نے گھولتے دیکھا ھے جب پاکستان سے لاپتہ افراد کے بارے میں پڑھتی ھوں تو ان کے خاندان کی حالات کا دلی کیفیت کا اندازہ لگا سکتی ھوں انسان آس کے دئیے کو بجھنے نہیں دیا یادوں کے چراغ جلائے رکھتا ھے مگر ان چراغوں کے ساتھ خود بھی جلتا ھے کچھ زخم کبھی نہیں بھرتے ان زخموں سے خون ھمیشہ رستا رھتا ھے

Wednesday, September 23, 2009

میں اپنی ذات کا کبھی اظہار نہیں کرتی


میں اپنی ذات کا کبھی اظہار نہیں کرتی
شاید میں خود سے بھی پیار نہیں کرتی

کیا کھویا کیا پایا چھوڑو اب اس کو
میں تقدیر سے کبھی تکرار نہیں کرتی

دنیا کی عدالت میں خاموش رھتی ھوں
میں لفظوں سے کسی کو سنسار نہیں کرتی

اپنے جذبوں کو چھپا رکھا ھے تہہ دل میں
میں اپنے جذبوں کا بیوپار نہیں کرتی

ھاتھوں کی لکیروں میں کیا لکھا سوچا نہیں
میں اب ان باتوں پر اعتبار نہیں کرتی

زندگی کا سفر گزر رھا ھے دھیرے دھیرے
میں دن مہینوں کا شمار نہیں کرتی

نہ دنیا سے شکوہ نہ کسی سے شکایت ھے
میں کسی سے بھی گلہ سرکار نہیں کرتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعدیہ سحر

کوئ تو جگاؤ



غزہ پہ ظلم اور بربریت کا دوسرا ھفتہ شروع ھو گیا ھے مگر دنیا کو کوئ فرق نہیں پڑرھا کرسمس دھوم دھام سے منائ گئ نئے سال کا جشن منایا گیا آتش بازی کی گئ خوشی میں دھماکے کیے گئے لوگوں نے روشنیوں میں تالیوں کی گونج میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی دھماکے تو غزہ میں بھی ھوئے بس فرق اتنا ھے غزہ میں دھماکوں انسانی جسم اڑے تالیوں کی جگہ چینخوں کی آوازیں تھیں ساری رات مبارک باد کی جگہ بین ھوتا رھا مگر اس کا ساری دنیا میں کسی کو کوئ فرق نہیں پڑا کیونکہ کچھ فلسطینی مارے گئے وہ فلسطینی جن کو عرصے سے مارا جا رھا ھے مسلا جا رھا ھے مگر وہ سخت جان ھیں ختم نہیں ھو رھے پھیلتے جا رھے ھیں زندہ ھیں صرف سانس ھی نہیں لیتے بلکہ سر اٹھانے لگتے ھیں اپنے حق کی بات کرتے ھیں جس کا ان کو کوئ حق نہیںجس کے بدلے میں انھیں پھر مسلا جاتا ھے کچلا جاتا ھے مگر کوئ نہیں بولتا ھم سپر پاورز کی طرف دیکھتے ھیں وہ انصاف کریں ظلم کو روکیں ان لوگوں کی طرف دیکھتے ھیں جو کبھی نہیں چاھتے کہ مسلمان ترقی کریں ان کے مقابلے پہ آئیں ھم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ھم کیا کر سکتے ھیں کیا مسلمان اتنے کمزور ھیں کہ کچھ نہیں کر سکتے کیا 57 مسلم ممالک کے ڈیڑھ ارب لوگوں کے پاس کوئ دولت کوئ طاقت نہیں کہ وہ کچھ کر سکیں کیوں سو رھے ھیں وہ سب لوگ جن کو اللہ نے طاقت دی ھے وہ لوگ جو نئے جزیرے بسا رھے ھیں نیا منی یورپ بنا رھے ھیں دنیا کی بلند ترین عمارتیں بنا رھے ھیں دنیا کے مہنگے ترین ھوٹل بنا رھے ھیں وہ لوگ جن کو اللہ نے تیل جیسی نعمت دی ھے وہ نعمت جس کے بنا دنیا ایک دن بھی نہیں چل سکتی کوئ تو جاؤ ان کو جگاؤ انھیں بتاؤ کہ غزہ میں کیا ھو رھا ھے کیسے تڑپ تڑپ کے معصوم بچے مر رھے ھیں بنا مرھم پٹی کے زخموں سے چور لوگ بنا کسی امداد کے پڑے ھیں کتنی ماؤں کی گودیں سونی ھو گئیں کتنے بچے اپنی ماؤں کی لاشوں سے لپٹے بھوکے پیاسے بیٹھے ھیں کتنے جوان جنھوںنے اپنے ماں باپ کا سہارا بننا تھا اپاھنج ھو گئے ھیں
کوئ اب کو خبر دو انھیں یاد کرواؤ ھمارا اس مذھب سے تعلق ھے جس کے ماننے والوں کو ایک جسم سے تشبیح دی گئ ھے کون سی آواز سے وہ جاگیں گے کیا غزہ میں رھنے والی مائیں مائیں نہیں ھیں ؟کیا وہ سب انسان نہیں ھیں؟ کیا ان کو جینے کا کوئ حق نہیں؟ کیا ان کی جانوں کی کوئ قیمت نہیں؟ کیا ایک اسرائیلی کی قیمت ھزار فلسطینی ھیں ؟کون ھے جو ظالم کو روک سکے کیوں کسی بے بس نوجوان میں اپنا بھائ نظر نہیں آتا کیوںکسی بچے میں اپنا بچہ نظر نہیں آتامسلم امہ کیسے جاگے گی کوئ تو جگاؤ اب نہیں جاگیں گے تو کب جاگیں گے

اسلام ھے کہاں



پچھلے دنوں ھماری جاننے والی ایک فمیلی عرصے کے بعد پاکستان گٰٰئی وہاں ان کی بیٹی نے سوال کر کر کے انھیں پریشان کر دیا وہ کہتی ھیں میں کیا جواب دیتی میرے پاس اس کے کسی بھی سوال کا کوئ جواب نہیں تھا …یہاں انھوں نے اپنی بیٹی کو یہ بتایا ھم پاکستانی ھیں ھم مسلمان ھیں ھماری حیا کیا ھے ھمارا لباس کیا ھونا چاھیے ..جب عرصہ دراز کے بعد پاکستان جانا ھوا تو یہ وہ پاکستان نہیں تھا جس کو وہ چھوڑ کر آئیں تھیں یا وہ پاکستان جو انھوں نے اپنی بیٹی کے دل میں بنایا تھا..پاکستان کے بڑے شہروں میں آزادی مغربی کلچر کی اندھا دھند تقلید …بازاروں میں فل آواز میں فضول گانے …ٹی وی پروگرامز جن میں نہ بولی پاکستانی ھے نا ھی کلچر …وہ کونسا کلچر دیکھا رھے ھیں ..سٹیج شوز میں جگت بازیاں ..بازاروں اور ریسٹورینٹز میں گھومتے ھوئے لوگ ان کے لباس . شلوار قمیض کی شکل کیا سے کیا ھو گئ ڈوپٹہ اب اولڈ فیشن بن گیا ..جن ھوٹلز کے پاس شراب بیچنے کا لائیسنس ھے قہ عید شبراتوں پہ ریکارڈ بزنس کرتے ھیں ..
اسلام کےنام پہ بننے والے ملک میں اسلام ھے کہاں .ھمارے بزرگوں نے قربانیاں کیوں دیں تھیں کیوں ایک الگ اسلامی ملک بننانے کی ضرورت محسوس ھوئ تھی ھندوؤں کااہن سہن کلچر الگ ھے مگر آج کوئ پاکستانی چینل اور انڈین چینل دیکھ کر بتا سکتا ھے کہ کونسا پاکستانی چینل ھے اور کونسا انڈین ھے ..وہ کونسا کلچر دیکھا رھے ھیں
جب سے پاکستان بنا ھے حکمران اسلام نافذکرنے کی باتیں کر رھے ھیں مگر کونسا اسلام نافذ کرنا چاھتے ھیں کیونکہ پاکستان میں بہت سے فرقے ھیں ان کے عقائد میں بہت فرق ھے .اسلام کیا ھے جس کی تعلیم قرآن دیتا ھے جو رسولِ کریم کی سنت سے ھم عملی صورت میں دیکھتے ھیں ..
پاکستان میں ایک طرف لوگ مغربی کلچر کی اندھادھند تقلید کرتے نظر آتے ھیں .ویسا لباس ویسا لب و لہجہ اپنانےمیں مصروف ھیں جن کے لیے اسلام کیا ھے رمضان جیسے بھی گزرے مگر چاند رات کو رت جگا اور ھوٹلنگ ضروری ھے عید کی نماز کے وقت سو جانا. ..دوسری طرف کچھ لوگوں کو زبردتی داڑھی رکھنے پہ مجبور کیا جا رھا ھے داڑھی نہ رکھنے پہ سزائیں دی جا رھی ھیں کچھ لوگوں کی زندگی میوزک ھے .اور کچھ لوگوں کے نزدیک میوزک حرام ھے .گاڑیوں سے سی ڈی پلیئرز توڑے جا رھے ھیں دوکانیں جلائ جا رھی ھیں . اسلام میں مرد اور عورت دونوں پہ تعلیم فرض ھے مگر کچھ علاقوں میں اسلام کے نام پہ عورتوں کے گھر سے نکلنے پہ پابندی لگائ جا رھی ھے ….اگر اسلام کی تاریخ پہ نظر ڈورائیں کیا رسولِ کریم کی زندگی میں اسلام ایسے نافذ ھوا تھا .اسلام میں اگر بے راہروی نہیں تو انتہا پسندی کی بھی کوئ جگہ نہیں اسلام اعتدال کی اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ھے .حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی فرض ھیں . اسلام یہ نہیں کہتا کہ ساری رات سجدے میں پڑے رھو یا دنیا میں اتنے مست ھو جاؤ کے خدا کو ھی بھول جاؤ . مگر زبردستی کرنے سے آپ کسی کے دل میں ایمان نہیں جگا سکتے ….
اسلام نافذ کرنے والے خود کتنااسلام پہ کاربند ھیں. ایک اسلامی ملک میں بھوک اور غربت کے ھاتھوں تنگ آکر کتنے لوگ خودکشی کررھے ھیں ھر انسان اپنے دائرہ کار کا جوابدہ ھے ایک باپ اپنے گھر کا . ایک افیسر اپنے دفتر کا . ایک نمبردار اپنے علاقے کا ایک حکمران اپنے دائرہ اثر کا .. پاکستان میں ھر علاقے میں کیا ھر گلی میں مسجد ھے جہاں امام مسجد بھی ھوتا ھے ھونا تو یہ چاھیے کہ امام مسجد کو لوگوں کے حالات کا علم ھو کون صدقہ زکوت کا مستحق ھے کن لوگوں کی مدد کی ضرورت ھے جمعے کے خطاب لوگوں کو ترغیب دی جا ئے کہ وہ لوگوں کی مدد کریں جو لوگ مستحق ھیں ان کی خاموشی سے مدد کی جائے کوئ بھوکا نہ مرے مگر آجکل مسجدوں سے جہاد کی آوازیں آرھی ھیں جب گھر کے لوگ بھوکے مر رھے ھوں تو کیا جہاد واجب ھے…ایک صاحبِ حثیت انسان ھے مگر اس کے آس پاس لوگ علاج کے بنا مر رھے ھوںتو کیا جہا د واجب ھے میرا خیال ھے ایسے میں حج بھی واجب نہیں .. آجکل ملا کے نزدیک جہاد سب سے افضل ھے دوسروں کی آگ میں کو دنے کا نام جہاد نہیں جب اپنے گھر کی عورتوں کی عزت محفوظ نہ ھو ں بے راہروی عام ھو جائے تو کونسا جہاد افضل ھے کیا کوئ اللہ کا بندہ مجھے بتائے گا اسلام کیا ھے اور ھمارے فرائض کیا ھیں
ھمارا طرزِ زندگی کیا ھونا چاھیے پاکستان ایک اسلامی ملک ھے اسلام ھے کہاں …ایک عام گلی محلے سے لے کر پارلیمنٹ ھاؤس تک آخر اسلام ھے کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

---------------------------------------- سعدیہ سحر

محبت زندگانی ھے



محبت میں
دوستی کے رشتوں میں
یہ لڑنا جھگڑنا
دوریاں بڑھاتے ھیں
یہ پل دوری کے
سوئ محبت جگاتے ھیں
تجدید محبت کے پل سے
محبت مسکراتی ھے
فضا گنگناتی ھے
بن کے کہکشاں
ھماری زندگی کو جگمگاتی ھے
محبت مٹتی نہیں
دل میں بستی ھے
گردش ایام میں
مدھم ھو بھی جائے تو
محبت مرتی نہیں
مر کر بھی زندہ رھتی ھے
محبت لافانی ھے
یہ ھے کائنات پہ محیط
محبت ھر پل میں
محبت ھے خوشی
یہ زندگی ھے
محبت بندگی ھے
محبت کی بس دو لفظوں کی کہانی ھے
محبت زندگانی ھے
محبت لافانی ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ سعدیہ سحر

میرے خواب بکھر گئے

میرے خواب بکھر گئے


میں حیرت سے اپنے گھر میں آئے رشتے داروں کو دیکھ رھی تھی صبح بابا نے کہا تھا اللہ نے مجھے ایک بہن دی ھے میں بہت خوش تھی میں نے اسے دیکھا معصوم سی گڑیا سو رھی تھی میں نے اسے آہستہ سا ھاتھ لگایا تو تھوڑی سی حرکت کی میں دیکھ کر مسکرائ یہ گڑیا ھے مگر ھلتی بھی روتی بھی ھے شام تک میں اپنی دوستوں کے ساتھ کھیلتی رھی بابا پھوپھوکو لے آئے تھے وہ پتا نہیں کیوں بار بار آنکھیں صاف کر رھیں تھیں مجھے بھی دعا کے لیے کہا ماں کے لیے دعا کرو میں کیا دعا کرتی مجھے بہن چاھیے تھی وہ مجھے مل گئ ابا پریشان تھے پھر ساتھ والی خالہ نے مجھے گلے لگا کر رونا شروع کر دیا وہ کیا کہہ رھی تھیں مجھے سمجھ نہیں آرھا تھا وہ کہہ رھی تھیں اللہ کی مرضی اب بچوں کا کیا ھوگا میں اماں کو دیکھ رھی تھی ان کے منہ پہ کسی نے چادر ڈال دی تھی مجھے عجیب لگا میں نے چادر ھٹا دی اماں کہتی تھی منہ پہ چادر لے کر نہ سویا کرو میں نے کہا اماں کو سانس کیسے آئے گا پھوپھو نے روتے ھوئے کہا اب وہ اللہ کے پاس چلی گئیں ھیں ان کو سانس لینے کی ضرورت نہیں میں نے ابا سے کہا بہن اللہ کے پاس سے آئ تو اماں اللہ کے پاس کیوں چلی گئ بہن کو کون سمبھالے گا سب رونے لگے پھر اگلے دن اماں کو قبرستان میں چھوڑ آئے ابا نے مٹی کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے بتایا یہ اماں کی قبر ھے اب وہ یہی رھیں گی اس مٹی میں اکیلی اندھیرے میں میں بار بار قبر کو دیکھ رھی تھی قبر سے مٹی ھٹا رھی تھی جیسے مٹی ھٹانے سے اماں ھنستی ھوئ نکل آئیں گی
اماں کے بنا گھر عجیب سا لگتا تھا پھوپھو اب ھمارے پاس رھتی تھی ایک بار وہ کسی کو بتا رھی تھیں
اگر یہاں کوئ ھسپتال ھوتا کوئ ڈاکٹر ھوتا تو اماں بچ جاتیں مگر اللہ کی مرضی - میں سوچنے لگی اگر اللہ نے انھیں اپنے پاس بلانا تھا تو ڈاکٹر کیسے ان کو روک سکتا تھا یہ ڈاکٹر کیا ھوتے ھیں بہت نیک انسان یا فرشتے جن کی بات اللہ بھی مانتا ھے میں نے پھوپھو سے پوچھا یہ ڈاکٹر کون ھوتے ھیں کیسے بنتے ھیں تو پھوپھو نے بتایا ڈاکٹر بننے کے لیے بہت پڑھنا پڑتا ھے بہت محنت کرنی پڑتی ھے تو میں نے سوچا میں ڈاکٹر بنوں گی پھر کسی کی ماں چھوٹے بچوں کو چھوڑ کہ اللہ کے پاس نہیں جائے گی
مین نے آج بہت دن کے بعد اپنا بستہ کھولا مجھے پڑھنا اچھا نہیں لگتا تھا اماں ھر وقت مجھے پڑھنے کے لیے کہتی تھی میں نے پڑھنا شروع کیا تو مجھے بہت مشکل لگ رھا تھا مگر آج میں پڑھ رھی تھی مجھے محنت کرنی ھے بہت زیادہ پڑھنا ھےمجھے ڈاکٹر بننا ھے پھوپھو نے چھوٹی کا نام پلوشے رکھا تھا وہ جب بھی روتی تھی لگتا تھا وہ اماں اماں کہہ رھی ھے میں آسمان کی طرف دیکھ کر اماں سے کہتی اماں پلوشے کو دیکھو تمہیں بلارھی ھے کیوں چھوڑ گئ ھمیں واپس آجاؤ مگر کہتے ھیں جو اللہ کے پاس ایک بار چلا جائے وہ واپس نہیں آتا میں نے پھر اماں کی قبر پہ جا کر وعدہ کیا میں ڈاکٹر بنوں گی بہت پڑھوں گی

میں امامہ جو پڑھائ سے بھاگتی تھی اب پڑھنے لگی جو اپنا بستہ چھپا دیا کرتی تھی کہیں اماں مجھے سبق یاد کرنے کا نہ کہہ دیں اب وہی بستہ میری زندگی تھا میں جو استانی کے مارنے سے بھی سبق یاد نہیں کرتی تھی اب کہنے سے پہلے ھی سبق یاد کرنی لگی میں وہی امامہ ھوں جیسے کھیلنا اچھا لگتا تھا پڑھتے ھوئے کبھی بھوک کبھی پیٹ میں درد ھو جاتا تھا اب پڑھتے ھوئے کھانا پینا بھولنے لگی
پھوپھو کہتی تھیں کتنا پڑھو گی میں نے کہا اتنا جتنا ایک ڈاکٹر کو پڑھنا چاھیے ڈاکٹر فرشتے کا دوسرا روپ ھوتے ھیں یہ مجھے ابا نے کہا تھا اور مجھے اب فرشتہ بننا ھے جو لوگوں کو زندگی دیتا ھے

میں نے دینیات کی کتاب میں پڑھا جب رسول ِ کریم کو پہلی وحی ھوئ تو حکم ھوا اقراء یعنی پڑھ - میں سوچنے لگی اللہ نے یہ کیوں نہیں کہا میری عبادت کرو صدقہ دو اور کام کرو صرف پڑھنے کا ھی کیوں کہا کیا پڑھنا اتنا اھم ھے پڑھنے سے انسان اللہ کو پہچان سکتا ھے اس کے قریب ھو سکتا ھے میں پہلے ھی اپنی پڑھائ پہ توجہ دیتی تھی اب پڑھائ میری زندگی بن گئ تھی قرآن کے بعد میں اپنی کتابوں کو عزت دینے لگی یہی وہ کتابیں تھی جن کو پڑھ کر انسان عالم بنتا ھے دنیا کو جانتا تھا اس کائنات کو سمجھتا ھے

پلوشے نے ایک بار مجھ سے پوچھا ماں کیسی ھوتی ھے میں نے کہا پھوپھو جیسی ھوتی ھے وہ بھی اماں کی طرح ھمارا خیال رکھتی ھیں وہ بھی ھم سے پیار کرتی ھیں اس نے مجھ سے پوچھا اماں تمہں کتنا پیار کرتی تھی تو میری آنکھوں میں آنسو آنے لگے مگر میں پلوشے کے سامنے نہیں روتی تھی
میں نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا آہستہ سے کہا اماں مجھ سے اتنا پیار کرتی تھی جتنا میں تم سے پیار کرتی ھوں میں نے ایک بار پھر عہد کیا میں ڈاکٹر بنوں گی میں نے ابا سے کہا ابا میں ڈاکٹو بنوں گی ابا نے کہا یہاں کوئ اپنی بیٹیوں کو اتنا نہیں پڑھاتا میں نے مضبوط لہجے میں کہا نہیں بابا میں نے ڈاکٹر بننا ھے پھر کوئ پلوشے کسی سے یہ نہیں پوچھے گی کہ ماں کسی ھوتی ھے اب کسی کی ماں بے موت نہیں مرے گی بابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے انھوں نے خاموشی سے میرے سر پہ ھاتھ رکھا اور بنا کچھ کہے چلے گئے میں اب میٹرک میں تھی میرے رشتے آرھے تھے مگر ابا ٹال رھے تھے میں جانتی تھی ابا مجھے پڑھانا چاھتے ھیں مگر برادری کے سامنے کچھ نہیں کہتے میں نے آٹھویں کے بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کیا تھا ابا نے مجھ سے کہا تھا اگر میں نے میٹرک میں بھی ٹاپ کیا تو مجھے کالج میں داخلہ دلادیں گے چاھے خاندان والے کچھ بھی کہتے رھیں

عید آنے والی تھی ھم شہر خریداری کرنے گئے پھوپھو اور پلوشے کپڑے دیکھ رھی تھیں میرا سارا دھیان پیچھلی طرف کتابوں والی دکان پہ تھا ابا نے کہا تم کیوں کوئ کپڑے نہیں دیکھ رھی میں نے آہستہ سے کہا ابا مجھے کتابیں لے دو کپڑے تو میرے پاس پہلے بھی بہت ھیں اتنی کتابیں ھمارے گاؤں کی کسی دکان پہ نہیں ابا ھنس پڑے پگلی کتابیں بھی لے دیتا ھوں پہلے عید کے لیے کپڑے لے لو میں نے جلدی سے ایک سو ٹ پسند کیا اور کتابوں والی دکان پہ بھاگ گئ وھاں اخبار کے پہلے صفحے پہ خبر تھی طالبان نے لڑکیوں کے ایک اور اسکول کو جلا دیا میں پڑھ کر پریشان ھو گئ یہ کون سا اسلام ھے اسلام میں تو پڑھنے کا حکم ھے وہ عورت ھو یا مرد اسکولوں کے بنانے پہ کتنا پیسہ لگتا ھے کتنے اسکول جل رھے ھیں آخر یہ سب کیوں ھو رھا ھے یہ سب کون کر رھا ھے اسلام تو چودہ سو سال سے ھے یہ کونسا نیا اسلام ھے جو تعلیم کو گناہ سجھتا ھے حضرت عائشہ تو سب کو درس دیا کرتی تھیں رسول ِ کریم کی زندگی میں ھی عورتیں جنگ میں حصہ بھی لیتی تھیں تلوار بازی گھڑسواری وہ گھر میں بند ھو کر نہیں سیکھتی تھیں میدان ِ جنگ میں مردوں کی مرھم پٹی کرتی تھیں جو ان کے لیے بالکل نا محرم ھوتے تھے ان کو پانی پلاتی تھیں گھر میں قید نہیں کی جاتی تھیں اب ایسا کیوں کیا جا رھا ھے میرے دل میں ھزار سوال تھے مگر جواب کسی کے پاس نہیں تھا

ایک دن مغرب کے وقت ھم نماز پڑھ کے فارغ ھوئے میں اور پھوپھو کچن رات کا کھانا بنا رھے تھے پلوشے کھیل رھی تھی ایک زور دار دھماکہ ھوا ھم سب خوف ذدہ ھو گئے میں پھوپھو کے گلے لگ گئ اور پلوشے میری ٹانگوں کے ساتھ چپک گئ اتنا زوردار دھماکہ پھوپھو زیرِلب دعائیں دھرانے لگی گلی میں شور تھا لوگ بھاگ رھے تھے سب مرد دیکھنے جا رھے تھے دھماکہ کہاں ھوا ھے پھر کسی نے بھاگتے ھوئے کہا لڑکیوں کے اسکول کو کسی نے دھماکے سے اڑا دیا پھر مجھے ھوش نہیں رھا مجھے یاد ھے میں بھاگ رھی تھی میرے سر پہ ڈوپٹہ تھا یا نہیں مجھے ھوش نہیں میں نے اسکول کی جگہ ملبے کا ڈھیر دیکھا دھواں‌اٹھ رھا تھا اینٹیں پتھر بکھرے ھوئے تھے ایسے لگ رھا تھا میرے خواَب بکھرے ھوئے ھیں اسکول نہیں جل رھا پورے گاؤں کا مستقبل جل رھا ھے میں دیوانہ وار رو رھی تھی اتنا تو اماں کے مرنے پہ نہیں روئ تھی آج لگ رھا تھا جیسے میری نہیں مجھ جیسی بہت سی لڑکیوں کی مائیں بنا علاج کے مر گئیں ھیں ابا نے میرا ھاتھ کھینچا تم یہاں کیا کر رھی ھو یہاں سب مرد ھیں گھر جاؤ میں ان کے گلے لگ گئ میں نے روتے ھوئے ان سے کہا
بابا اب گاؤں‌ کوئ ہسپتال نہیں بنے گا کوئ ڈاکٹر نہیں بن سکے گا اب کئ امامہ رات کو اٹھ کے اپنی ماؤں کو یاد کیا کریں گی کئ پلوشے لوگوں سے پوچھا کریں گی ماں کیسی ھوتی ھیں دنیا میں ھم دھشت گرد کے نام سے جانے جائیں گے لوگ ھمیں انتہا پسند کہیں گے جو اپنی عورتوں کو کسی پرندے کی طرح پنجرے میں قید کر کے رکھتے ھیں اب عیسائ فخر سے بیان دیں گے اسلام مساوات کا مذھب نہیں اسلام امن کا درس نہیں دیتا زبردستی کا درس دیا ھے اب بہت سے وہ لوگ جو اسلام کے قریب آرھے تھے اسلام سے دور ھو جائیں گے نفرت کرنے لگیں گے بہت سے لوگ اپنا پیسہ غیر ممالک میں ٹرانسفر کر دیں گے کہ یہاں امن ممکن نہیں
میرے ھونٹوں پہ بہت سے سوال تھے مگر جواب کون دیتا سب میری طرح بے بس تھے میرے سامنے میرے خواب جل رھے تھے اور میں انھیں جلتا ھوا دیکھ رھی تھی آپ میری جگہ ھوتے تو کیا کرتے ؟؟

میں نے کہا مجھے عشق ھے



میں نے کہا مجھے عشق ھے
اس ذات سے جو خالقِ کائنات ھے
جو میری شہ رگ کے قریب ھے
جس کے ھاتھ میں میرا نصیب ھے
وہی میرا مالک میرا محبوب ھے
اس نے مجھے خوشیاں دیں
میں ان میں مگن ھوگئ
اس نے مجھے نوازا میں مغرور ھو گئ
میں نے اسے اپنا محبوب مانا
میں نے اپنے دل کی خواہشات کا احترام کیا
میں نے اپنی دل کے لیے اسے بہت بار نظر انداز کیا
اس یقین کے ساتھ وہ رحمان ھے معاف کردے گا
وہ میرا محبوب ھے میرے ساتھ رھے گا
بنا مانگے میری ھر خواہش پوری کرے گا
مجھ سے ناراض بھی ھوا تو
میری آنکھ کا ایک آنسو اسے میرے قریب لے آئے گا
میں نے اسے چاہا مگر اس کے رنگ میں رنگی نہیں
میں نے اسے یاد کیا تو انگلیوں پہ گن گن کر
میں نے سجدے کیے مگر وصل کی لذت سے ناآشنا
شام ِ ہجراں گزریں محبوب کے وجود سے بے خبر
یہ میں نے کیسا عشق کیا
محبت تو اس نے کی
میری نادانیوں کے باوجود
مجھے محبت ھی محبت دی
ھر موڑ پہ میرا ساتھ دیا
اگر وہ بھی میرے جیسا بن گیا
اس نے مجھے نظر انداز کر دیا
مجھ سے بڑا بدنصیب کون ھوگا
آج میں نے جانا
میرا عشق ادھورا
میری ذات ادھوری ھے
میرا وجود میری ھر بات ادھوری ھے
اس عشق بنا یہ کائنات ادھوری ھے
اس سے ھوئ ملاقات ادھوری ھے
میں نے کہا مجھے عشق ھے اس کی ذات سے
اے میرے محبوب مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے
میرے ادھورے عشق کو مکمل کردے
وصل کے لمحوں وہ لذت بھر دے
میری تنہائیوںمیں بس تیری ھی ذات ھو
زبان پہ ھر دم تیرا ذکر تیری بات ھو
تیری یاد میں بسر ہر دن رات ھو
میں نے کہا مجھے عشق ھے

--------------------- سعدیہ سحر

میرے وطن میں عید کسی ھوئ ھوگی



رمضان میں جن کے روزے آٹے کی لائینوں میں گزرے
جو لوگ میٹھی عید منانے کے لیے چینی کو ترستے رھے
جن کے پیارے روزے میں ایک وقت کی روٹی کے لیے قدموں تلے روندھے گئے
جن کے سحری اور افطاری وقت بھی فاقے ھوتے رھے
ان کی عید کیسی گزری ھوگی
حیرت کی بات ھے نہ
ایک ھی سرزمین
ایک ھی ملک ایک ھی جیسے لوگ مگر زندگیوں میں اتنا فرق
کچھ لوگوں نے لاکھوں کی شاپینگ کی
لاکھوں روپے افطاریوں پہ لٹا دیئے
جس ملک کے صدر کے کتوں اور گھوڑوں پہ لاکھوں خرچ ھوتے ھیں
وزیرِ اعظم لاکھوں کی گھڑی اور کپڑے زیب تن کرتے ھے
جس کے پارلیمنٹ اور ایوان صدر کی آرائش پہ کروڑوں خرچ ھوتے ھیں
جس ملک میں ایک ارب روپوں کے قریب لوگوں نے فطرانہ دیا
جہاں کروڑں روپے کی زکات دی صدقات دیئے
اور اس ملک کے لوگ ایک وقت کی روٹی کے لیے
اپنے بچے بیچ رھے ھیں
فاقے کر رھے ھیں
حالات سے تنگ آکر خودکشی کر رھے ھیں

Saturday, September 5, 2009

ھماری عوامی حکومت کیا چاھتی ھے؟؟؟

کچھ دنوں سے ھر جگہ ایک ھی بحث‌ چل رھی ھے جو نئے قانون کے بارے میں ھیں 
آپ سب سمجھ گئے ھوں گے میں کس قانون کی بات کر رھی ھوں 
جی بلکل ٹھیک سمجھے 
حکومت کے بارے میں ایس ایم ایس کرنے پہ چودہ سال کی قید اور جائداد کی ضبطی --------
اس قانون کے بہت سے فوائد ھیں

نمبر 1- ملکی خزانہ بھرے گا حکومت کے خلاف ایس ایم ایس وہی لوگ کرتے ھیں جو صاحبِ حثیت ھوتے ھیں - وہ لوگ ٹیکس بھی نہیں دیتے اسی بہانے ان کی جائداد حکومت کے قبضے میں آجائے گی 

نمبر 2 - اگر ایسی ایس ایم ایس کوئ غریب کرے گا تو قید کی سزا ھو جائے چودہ سال کے لیے دال روٹی کے خرچ سے آزادی آٹے کے لیے لائن میں نہیں لگنا پڑے گا پکی پکائ روٹی ملے گی بے فکری سے زندگی کے چودہ سال گزریں گے 

نمبر 3 - آج کل ایک اور موضوع ھے جس پہ بہت بحث ھورھی ھے قیادت کا بحران ------
آپ سب تو جانتے ھیں ھمارے صدر صاحب اور وزیر اعظم بھی جیل سے تربیت حاصل کر چکے ھیں پاکستان کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ھے جو بھی جیل گیا ھے ھمارا لیڈر بن کر نکلا ھے اگر ھزاروں لوگ جیل جائیں گے تو آنے والے چند سالوں میں ھم قیادت کے معاملے میں خود کفیل ھو سکتے ھیں امید ھے بہت سے نئے لیڈر ہمیں ملیں گے جو جیل کی باتیں سنا سنا کر عوام سے ووٹ طلب کریں گے ملکی قیادت جاگیرداروں سے عام عوام میں منتقل ھو جائے گی


پتا نہیں کیوں لوگ حکومتی پالیسیوں پہ تنقید کرتے ھیں بغور جائزہ کیوں نہیں لیتے -
یہ کسی آمر کی حکومت نہیں ھے عوام کی منتخب کردہ نمائندے ھیں یہ ایک عوامی حکومت ھے اور عوامی حکومت عوام کے بھلے کا نہیں سوچے گی تو کون سوچے گا

محترم وزیرِ داخلہ ھم آپ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ھیں آپ اتنے ذہین ھیں میرے خیال میں تو وزیرِ خارجہ وزیرِ قانون کے عہدوں کے بھی آپ ھی حقدار ھیں 

میری جیف جسٹس سے مودبانہ گزارش ھے وہ اس بات کا از خود نوٹس لیں اور جناب رحمان ملک کو انعام و اکرام سے نوازے 
آج تک کسی نے اتنے عوام دوست قانون نہیں بنائے امید ھے ھمارے وزیرِ داخلہ کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا

بحران ھی بحران



پہلے آٹے کا بحران تھا ابھی لوگ آٹے کی لائنوں میں لگے ھوئے تھے 
چینی کا بحران آگیا 
ابھی ٹی ؤی پہ آرھا تھے پٹرول مہنگا ھورھا ھے ساتھ ھی بہت سے شہروں میں پٹرول ناپید 
ھوگیا ھے
ابھی رمضان میں منافع خوروں کا پتا نہیں کس کس چیز کو مارکیٹ سے غائب کرنا ھے 
کھانے پینے کی چیزیں تو نا پید ھے ھی 
پہلے ٹالک شو ھورھے تھے قیادت کا بحران ھے 
سب بحران ھیں مگر کبھی چوروں لٹیروں کا بحران نہیں ھوا اس میں ھم خود کفیل ھیں
بھوکے ننگے ملک کی عوام کو لوٹنے کے لیے اچھے کھاتے پیتے ملک کے لوگ آتے ھیں
ھمارے حکمرانوں کو چاھیے ان سے کہہ دیں پاکستان کو کھانے کے لیے ھم ھی کافی ھیں
تم جا کر اپنے ملک کو لوٹوں مگر ھمارے حکمران ایسے کیسے کہہ سکتے ھیں
آخر ان کے محل ان کے بنک بینلس وہی ھیں بلکہ جب ملک کو لوٹ کر بھاگنا ھے تو ان ھی ممالک میں بھاگنا ھے
کبھی دھشت گردوں کے بحران بھی آئے 
رشوت خور آفسران کا بحران بھی آئے 
ملک دشمن عناصر کا بھی بحران آئے 
خود غرض اور مفاد پرست سیاست دانوں کا بھی بحران آئے 
پارلیمنٹ میں لوٹوں کا بحران آئے جو ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں 
لڑکھتے پھرتے ھیں
آخر پاکستان میں ھر آفت غریب عوام کی قسمت میں ھی کیوں لکھی ھے