Wednesday, January 28, 2015

محبت یا پیسہ

فیس بک پہ اکثر دیکھا ھے ایک سوال پوچھا جاتا ھے ۔ آپ کا انتخاب کیا ھے ۔۔ محبت یا پیسہ 
تو اکثریت کا جواب ھوتا ھے محبت -------
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو  محبت کے بنا چار دن  زندہ رہ سکتے ھیں مگر پیسے کے بنا نہیں 
محبت کے بنا زندگی بے رنگ ھوتی ھے 
اور پیسے کے بنا زندگی ختم ھوتے دیکھا ھے 
اپنے بچوں کا سودا کرتے دیکھا ھے 
اپنے اعضاء بیچتے دیکھا ھے 
بھائ بھائ کا دشمن بن سکتا ھے 
ماں باپ قتل کر دیا جاتا ھے 
میاں بیوی کی محبت پیسے کی کمی سے دن رات کی لڑائ جھگڑے میں بدل جاتی ھے 
پیسہ ھر وقت کی ضرورت رہا ھے 
زن زر اور زمین کی اہمیت ھر علاقہ ۔ ہر زمانہ میں رہا ہے 
محبت جو کام نہیں کروا سکتی وہ پیسہ کروا دیتا ھے 
دین ایمان کا سودا ضمیر کا سودا 
اگر پیٹ بھر کر کھانے کو ہو تو 
پہلا انتخاب محبت ھو گی 
بھوک سے مرتے ھوئے انسان سے پوچھیئے 
ایک باپ کے سامنے اس کا جوان بیٹا  اس لیے مر رھا ھے کہ اس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں
اس سے پوچھیں  محبت چائیے تو
وہ آپ کا پاگل سمجھے گا ۔
  اگر آپ کو اس سے محبت ھے تو آپ کا فرض ھے اس کی ضرورت  کو پورا کریں 
اسے مشکل  سے نکلنے کے لیے مدد کریں 
سننےاور پڑھنے میں کتابی  فلمی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں ہمارا انتخاب محبت ہے ہمیں دنیا کا لالچ نہیں 
مگر دنیا کے ساتھ محبت کے 
محبت کے ساتھ دنیا ھے 
بنا محبت دنیا نہیں اور دنیا کے بنا محبت نہیں 

------------------------------------
ایک چھوٹی سی خبر پڑھی تھی ۔ ایک عورت نے خودکشی کر کی ڈھائ برس کے بچے کے ساتھ
ہاں  ھمارے لیے چھوٹی سی خبر  ۔ بڑی بڑی باتیں ھوتی رھتی ھیں 
مگر پھر بھی 
کبھی چھوٹی چھوٹی سی باتیں بہت اثر کرتی ہیں



چار لائن کی کہانی




ایک جنگل میں شیر نے سب جانوروں کو  کو پکارا 
جب سب چھوٹے بڑے  جانور اکٹھے ھو گئ  ۔ 
تو کہا ۔ میں جنگل کا بادشاہ ھو سب میرے ماتحت  ہیں  سبھی کو میرا حکم ماننا پرے گا 
ہاتھی نے سونڈھ میں اٹھا کر گھوما کی زمین میں پٹخ دیا 
شیر نے اٹھ کر کہا ۔تم کون ھو  - اگر میری بات سمجھ نہیں آئ تھی  تو کسی سے پوچھ لیتے 
ہاتھی نے کہا ۔ میں  جنگل کا چیف آف آرمی اسٹاف ہوں 

Saturday, January 24, 2015

سچ اور آئینہ

لوگ سچ سننا پسند نہیں کرتے اس کی ایک وجہ یہ بھی ھے ۔ سچ بے لباس ھوتا ھے برہنہ سامنے  آ کھڑا ھوتا ھے اپنے کوڑھ ذدہ وجود کے ساتھ اپنے تلخ چہرے کے ساتھ جو ھم برداشت نہیں کر پاتے 





جھوٹ ھزار پردوں میں میں چھپا رہتا ھے ۔یا بہت ھی   حسین اور  دلکش لباس ملبوس کیے ھوتا ھے ۔ جو ھمیں دیکھنے سننے میں اچھا لگتا ھے ۔ ھم خوبصورت  پردوں میں چھپا مکروہ چہرہ دیکھ نہیں پاتے ۔۔۔ جب جھوٹ کے پردے ھٹتے ھیں ۔۔ ھمارے سامنے سچ بن کر آتا ھے تو ۔۔ ھمیں برا لگتا ھےھمارے لیے نا قابلِ برداشت ھوتا ھے  ھم  اس سے  نفرت کرنے لگتے  ھیں 








ھر انسان خود کو آئینے میں دیکھتا ھے ۔۔ خود کو سنوارتا ھے ۔۔ سجتا ھے ۔۔۔ اپنی خوبصورتی پر نظر رکھتا ھے ۔۔ اور خوش ھوتا ھے 
مگر جب کوئ ھمیں آئینہ دیکھاتا ھے ۔۔تو ھمیں برا لگتا ھے  اس لیے نہیں کہ آئینہ بد صورت ھوتا ھے   اس میں نظر آنے والا    عکس بھیانک نظر آتا ھے تو ھم چیخنے چلانے لگتے ھیں ۔۔۔ قصور آئینہ دیکھانے والے کا نہیں ھوتا ۔۔۔ ھمارے چہرے کا ھوتا ھے ۔۔۔کچھ لوگ  جھوٹ سننا پسند کرتے ھیں ۔۔۔ اپنے وجود سے وابستہ کوئ بھی کمزوری  نہ دیکھتے ھیں نہ دیکھنا پسند کرتے ھیں ۔وہ یہ نہیں سوچتے ۔ اس کمزوری اس خامی کو دور کر دیں  تو پھرآئینے میں   عکس  خوبصورت    دیکھے  گا   ۔۔۔ مگر شرط یہ ھے پہلے آپ سچ کا سامنا کریں ۔ اور حقیقت کو مانیں --












Monday, January 19, 2015

ادھر اُدھر سے

ادھر اُدھر سے 

قوم  جس حال میں اس وقت ھے اسے  تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ھے ۔ لوگ کہہ رھے ھیں ۔ آزمائے ھوئے کو نہیں آزمانا چاھئیے ۔ ھم نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا - ھمارے پاس تجربہ  ھے تجربہ کار لوگوں کی ایک ٹیم ھے - ھمیں مسائل کا پتا ھے ۔ ھمیں انتظار نہیں کرنا پڑے گا ۔ ھم فوری کام شروع کر سکتے نئے لوگوں کو کیا  پتا -کس بات کا تجربہ ھے ان کے پاس

میاں صاحب  آپ کی تقریر   یاد کر کے شکر ادا کر رھی ھوں ناتجربہ کار لوگ ملک کا پتا نہیں کیا حال کرتے ۔ جب آپ کی تجربہ کار ٹیم نے یہ حال کیا ھے  - آپ کا تجربہ  ھر طرف بول رھا ھے 
----------------------------------------
خادمِ اعلیٰ صاحب آپ نے فرمایا تھا عوام کے لیے دن رات ایک کر دیں گے 
آپ کا تو پتا نہیں  عوام کے دن رات ایک ھو چکے ھیں 
دن کو بھی پٹرول کے لیے لائن میں اور رات کو بھی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خاں  نے نعرہ لگایا  نیا پاکستان  کا 
مگر میاں  صاحب نے پراناپاکستان بنا دیا 
جب پاکستان میں نہ گیس تھی نہ بجلی ۔ سڑکوں پہ سائیکل چلتے نظر آتے تھے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان نے ایک ارب  درخت لگانے کا پروگرام بنایا ھے 
یہ پی پی پی  کو پروگرام بنانا چاھیئے تھا ۔ اس سے ان کا روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا ھو جاتا 
عوام درختوں  کے پتے  کھاتے ۔ اوڑھتے ۔ اور اسی پہ بسیرا کرتے اور ٹھنڈی  ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھتے 

---------------------------------------
عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا 
اور عوام نے دیکھا 
تبدیلی آئ ھے 
اور عوام بھی اپنی زندگی میں  ویسی ھی تبدیلی چاھتے ھیں جیسی عمران خان کی زندگی میں آئ 
پنشن  لینے  کی عمر کے لوگ بھی خود کو جوان سمجھنے لگے ھیں 

------------------------------------

سنا ھے مولانا فضل الرحمان  غصہ کرتے تھے جب انھیں مولانا ڈیزل کہا جاتا تھا 
اب سنا ھے خوشی کا اظہار کر رھے ھیں ۔۔ دیکھا بنا ڈیزل زندگی کا  سواد 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رانا ثناء اللہ  کسی کام کے لیے نہیں اپنے بیانات کی وجہ سے پہنچانے جاتے ھیں ۔ لوگ یہ نہیں جانتے ان کے پاس کیا عہدہ  ھے اور وہ کیا کام کرتے ھیں  ۔ بس یہ جانتے ھیں انھیں کسی پہ بھی چھوڑ دیا  جائے تو پھر خوب چھوڑتے ھیں 
فرما رھے ھیں عمران خان اسی سال پاگل خانے جائے گا 

رانا صاحب  حالات یہی رھے تو  پوری قوم کو جانا پڑے گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میڈیا پہ خبر گرم ھے ۔ محترم آصف علی زرداری  نے بھی شادی خانہ آبادی کر لی ھے ۔ خیر سے بلاول کا ایک بھائ بھی ھے جس کا نام سجاول ھے 
اگر یہ سچ ھے تو 
یقیناً  سجاول زرداری ھوگا  ۔۔ یا کسی طریقے  سے اسے بھی بھٹو بنایا جائے گا 

-----------------------------------------------

عمران خان صرف باتیں بناتا ھے 
سچ ھے عمران نے کہا وہ پاکستان بند کر دے گا 
اور
میاں صاحب نے کچھ نہیں کہا
اور کر دیا 
اسے کہتے   شیر 

---------------------------------------------------

میاں صاحب عمرہ کرنے گئے تھے
قوم کے لیے بہت سی دعائیں مانگی
کاش  تھوڑی سا پٹرول بھی مانگ لیتے 
کیا پتا مانگا ھی ھو 
ھم کونسا جانتے ھیں 
یہ بھی ھو سکتا ھے دعاقبول  نہیں ھوئ 
ایک اور عمرہ کر کے دیکھ لیں 
عوام کے پیسے سے عوام کے لیے دعا  کر دیں 
اللہ بھلا کرے گا 

---------------------------------

ایک ھی صف میں کھڑے ھو گئے محمود و ایاز 

ایک ھی لائن میں کھڑے ھو گئے  محمود ایاز  ---- موٹر سائیکل رکشے  اور گاڑی والا ----
واہ   -----------  امیر غریب کا فرق ھی ختم ھو گیا  ------- 
کون کہتا ھے پاکستانی عوام میں صبر نہیں 
صبح سے شام تک  پٹرول پمپ پہ کھڑے ھیں  اور صبر کی انتہا کیا ھو گی 
وہ لوگ کہاں ھیں جو کہتے تھے ھمیں لائن بنانا نہیں آتی 
اب دیکھیں  میلوں لمبی لائن
سچ کہتے ھیں وقت سب سکھا دیا ھے 
مشکلات  انسان  کو کندن بنا دیتی ھیں 
قوم کندن بن رھی ھے میاں صاحب شکریہ 

----------------------------------------
کسی سے پوچھا 
آبِ حیات چاھئیے یا  پٹرول
جواب -- پٹرول 
بجلی نہ ھو نہ پانی  نہ پٹرول ۔ عمرِ خضر  لے کر کیا کرنا 
--------------------------------------
شارٹ سٹوری 
میرے پاس پیسہ ھے 
کار ھے 
کوٹھی ھے اور تمہارے پاس
تمہارے پاس کیا ھے 
۔
-
-
-
میرے پاس پٹرول ھے ۔
ہاہاہا

----------------------

Thursday, January 8, 2015

امن اور چنگاڑی

بوڑھی جرمن عورت کانپ رھی تھی شاید وہ سب مناظر اس کی نظروں کے سامنے آگئے تھے - برسوں پھیلی جنگ  اجڑے دیار - بھوک سے تڑپتے بچے سنسان گلیاں  بات کرتے کرتے وہ رونے لگی ھم جنگ نہیں چاھتے وہ بہت تکلیف دہ ھوتی ھے کوئ تصور نہیں کر سکتا کوئ بیاں نہیں کر سکتا کوئ محسوس نہیں کر سکتا اس کرب کو اس تکلیف کو - وہ روتے 
ھوئے کہہ رھی تھی 


آج کے نوجوان کیا جانیں  جنگ کیا ھوتی ھے جو امن کے زمانے میں پیدا ھوئے جنھیں کچرے کے ڈھیر سے ایک ایک 
روٹی کے ٹکڑے کو چننا نہیں پڑا  جنھیں صاف پانی کے لیے ترسنا نہیں پڑا - سڑکوں ھفتوں پڑھی لاشیں نہیں دیکھنی پڑی - ھم جنگ نہیں چاھتے ھم امن چاھتے ھیں  بہت مشکل سے ھم اس مقام تک پہنچیں ھیں  - دن رات کام کیا ھفتے کے سات دن سولہ سولہ گھنٹے  - 




یہ بات آج کل نوجوان کیا جانیں جو آٹھ گھنٹے کام کرتے ھیں محنت نہیں کرتے سگریٹ پینے کے لیے بار باروقفہ چاہتے ھیں ماں باپ کی کمائ پہ عیاشی کرتے ھیں -ھم نے  اپنے بچوں کو  ھر آسائیش  دی کیونکہ ھم خود ترس ترس کے زندگی گزار چکے تھے اپنے ملک کو بنانے کے جنون میں اپنی زندگی بہتر بنانے کے جنون میں ھم بہت سی باتیں اپنے بچوں کو سیکھانا بھول گئے  - انسانیت اور امن کا سبق  - ھم یہ سیکھنا بھول گئے امن سے بڑھ کر کوئ چیز نہیں  - 
اسائلم کے لیے  ھزاروں لوگ  جرمنی آتے ھیں  انھیں پناہ دی جاتی ھے  غیر  ملکیوں نے  جرمنی کی تعمیر میں حصہ  لیا بہت کام کیا -  انھیں جرمن کے برابر حقوق دئیے گئے - مشرقی جرمنی  لمبا عرصہ جرمنی سے الگ رھا  - بہت ظلم برداشت کیے   غیر ملکیوں کے لیے ان کے دلوں میں نفرتیں ھیں   - جو مختلف  واقعات سے سامنے آتی رھتی ھے - ملک بھر میں سکون تھا  ایک دراڑ  نائن الیون کے بعد  پڑی  جو مٹی نہیں -  آہستہ آہستہ  غیر محسوس طریقے سے پھیلتی رھی  - سلو 
پائیزن  کی طرح 





ایک مخصوص  سوچ کا حامل  نازی  گروپ کے جلسے جلوس غیر ملکیوں کے خلاف  ھوتے تھے جسے پر امن جرمن ناپسند یدہ نظروں سے دیکھتے تھے  - آج غیر ملکیوں کے خلاف جلوسوں میں حاظرین کا تعداد پندرہ سے بیس ھزار تک پہنچ چکی ھے  جو قابلِ تشویش  ھے 
ان جلوس کے مقابلے پر ایک بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کے حق میں بھی جلوس نکل رھے ھیں  - مگر مخالفت میں نکلنے والے  جلوسوں کی حاضری بڑھتی جا رھی ھے  - ایسا یورپ کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے میں آرھا ھے  - ایک آلارم بج رھا ھے ۔ چند ایک  مسلمان ممالک کے علاوہ  باقی مسلم ممالک اندرونی مسائل کا شکار ہیں   یا ایک دوسرے کو ھی اپنی نفرت کا نشانہ بنا رھے ھیں ۔ اگر یورپ میں نفرت کی آگ پھیل گئ تو  بہت بڑے اور نا قابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا  جس کا ابھی اندازہ نہیں کر سکتے 

امن کی باتیں کرنی والی بوڑھی جرمن آج مر چکی ھے  ۔  اب سڑک پر  آج کا نوجوان کھڑا ھے جو نہیں جانتا ماضی کیا تھا کون کون سی مشکلات تھیں  ۔ غیر ملکیوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد کون کون سے کام  کیے جرمنی ترقیوں کی منزل  طے کرتے کرتے یہاں تک کیسے پہنچا   - جرمن صرف جرمنوں کا ھے یہ نعرہ یہ سوچ ہٹلر کی تھی  جو آج پھر لوگوں کی زبان  پر  آرھی ھے ۔ اس سوچ نے پہلے بھی دوسروں کے ساتھ جرمنوں کو بھی تباہ کیا تھا - اب بھی صرف تباہی لائے گی -  تاریخ بار بار اپنے آپ کو دھراتی ھے - انسان وہی غلطیاں بار بار کرتے ھے  ۔ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا  - واقعی ھی انسان کم فہم   بھی  ھے اور ظالم بھی  -
آگ بجھانے کی کوشش کی جا رھی ھے ۔ مگر چنگاڑی بھڑک رھی ھے  - اسے ایندھن نہ ملے تو اچھا ھے