Sunday, December 25, 2011

ھمارے قائد


آج اس شخصیت کی پیدائش کا دن ھے جس کی تصویریں پاکستان میں سب سے زیادہ چھپتی ھیں مگر بہت کم لوگوں کے گھروں کی دیواروں پہ ان کی کوئ تصویر نظر آئے گی ۔ مگر ھم اپنا ایمان بیچتے ھوئے دوسروں کے ضمیر کا سودا کرتے ھر جائز و نا جائز کام کرواتے ھوئے انھیں کی تصویر سے کام چلاتے ھیں ۔ جی ھم نے انھیں نوٹوں پہ سجا رکھا ھے جنھیں ھم اپنا قائد کہتے ھیں ۔ سارے ملک کا نظام انھیں کی تصویروں کی بدولت چل رھے ھے ۔


ان کی تصاویر ان کی تقاریر ان کے اقوال تو ھم نے " ناجائز اثاثوں " کی طرح چھپا کر رکھا ھوا ھے کہیں ان کو ھوا نہ لگ جائے اور کسی چھوت کی بیماری کی طرح پھیل نا جائے - لوگ پاکستان بننے کے مقصد کے سمجھنے نا لگ جائیں

ھم روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو پیچھلے تنتالیس برس سے خوشی خوشی لگا رھے  ھیں یہ نعرہ لگانے والے یہ نہیں‌ جانتے امن و اماں بھائ چارے کی فضا کے ساتھ ساتھ  تعلیم صحت کی سہولیات کی بھی بہت ضرورت ھے مگر نعرہ دے کر سب کچھ چھین لیا ۔ اتحاد ایمان اور تنظیم کو بھول کر روٹی کپڑا اور مکان حاوی ھو گیا ھے


قائد ِ اعظم کے ھمیں پاکستان دیا ھم نے انھیں مزار دیا ۔ جہاں لوگ ماضی میں نہیں جھانکتے بلکہ نوجوان نسل ھاتھ میں ھاتھ ڈالے مستقبل کے خواب دیکھتی ھے اور سیاسی شخصیات اپنی محبت کے اظہار کے لیے سرکاری خرچے پہ پھولوں کی چادر چڑھاتے ھیں قائد کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا وعدہ کرتے ھیں پھر مزار سے نکلتے ھی اپنے خوابوں میں کھو جاتے ھیں


اگر کوئ قائد کا ذکر کرے تو لوگ سوچنے لگتے ھیں کس قائد کی بات ھو رھی ھے آج کل قائد حضرات کی بھر مار ھو گئ ھے اینٹ اٹھاؤ تو کتنے ھی قائد چلبل چلبل کرتے برآمد ھوتے ھیں جو اپنی سوچ میں اپنی ذات میں قائد ھوتے ھیں - شکر ھے پہلے زمانے میں صرف ایک قائد تھے اگر اتنے قائد اور ایسے قائد او وقت  ھوتے تو پاکستان بننا نا ممکن تھا


قائد اعظم  ایک شریف انسان تھے ایک بار پیدا ھوئے اپنی زندگی کے مقصد کو اپنی زندگی میں حاصل کیا اس کے لیے اپنے سکون و آرام کی پرواہ بھی نہیں - آج کل لوگ مر کر بھی زندہ رھتے ھیں گھر گھر سے نکلتے ھیں  پھر بھی خواب کو حقیقت میں نہیں بدل سکتے
جو عہد ھم پچیس دسمبر کو کرتے ھیں تو وہ سارا سال یاد رکھیں اور عہد نبھانے کی کوشش بھی کریں تو اچھا ھے



Saturday, December 24, 2011

بولتی تصویریں


کبھی ھم بہت کچھ کہنا چاھتے مگر ایک تصویر وہ سب کچھ کہہ دیتی ھے
نیٹ پہ کچھ تصاویر دیکھی سوچا اپنے بلاگ پہ لگا دوں ۔

موبائل چھیننے کے بہت واقعات ھوتے ھیں اپنے موبائل کی حفاظت کا یہ آئیڈیا بھی کمال کا ھے



کار چوری ھونے کا ڈر ھے چور لاک کھول لیتے ھیں یہ لاک زرا الگ ھے



جب سی این جی نہیں ملے گا تو یہ سب دیکھنے کو ملے گا پی آئ اے ریلوے ۔ اور آمدورفت کی سہولیات ۔ جو بھی سفر کرتا ھے وہ دل سے حکومت کو دعا دیتا ھے


ڈبل سواری پہ پابندی ھے نا ۔ مگر دو  سے زیادہ لوگوں کو بیٹھانے پہ تو کوئ پابندی نہیں ھے نا


ھمارے ریلوے بھی ھمارے حکومت کی طرح دھکا اسٹارٹ ھے یہ منظر صرف پاکستان میں دیکھ سکتے ھیں آئ لو مائ پاکستان


شاعری دل کی زبان ھے کچھ گمنام شاعر ھے جو اپنے دل کی بات کہتے ھیں اور سچ کہتے ھیں


س تصویر میں سمجھ نہیں آرھا یہ حال عوام کا ھے  یا حکومت کا ۔۔ حکومت پہ ھر طرف سے دباؤ ھے لگتا ھے حکومت کا کام بیان دینا اور صفائ دینا رہ گیا ھے الزامات کے بوجھ کی وجہ سے خلا میں لٹک رھے ھیں  یا یہ عوام ھیں جن پہ ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ھے ٹیکس کا مہنگائ کا


اور سب سے آخر میں پڑھائ کی اھمیت پہ ایک تصویر ۔ اب مذید کچھ بھی کہنا بیکار ھے



Wednesday, December 21, 2011

عوام جاگ گئے





کسی نے کہا انقلاب آنے والا ھے کسی نے کہا اسے انقلاب کی چاپ سنائ دے رھی ھے کسی نے کہا حالات انقلاب والے ھیں اس لیے انقلاب کو آنے سے کوئ نہیں روک سکتا -

کسی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا کسی نے انکشاف کیا عوام جاگ گئے - نجانے عوام کون سی نیند سو رھے تھے خواب خرگوش کے مزے لے رھے تھے یا گھوڑے بیچ کر سو رھے تھے یا غفلت کی نیند سو  رھے تھے

کسی نے کہا عوام میں شعور بیدار ھو گیا ھے انھیں اپنے حقوق کا علم ھو گیا ھے اب عوام کو کوئ بے وقوف نہیں بنا سکتا - اب عوام کی حکومت آئے گی - کسی نے کہا اب سونامی آنے والا ھے

آج تحریک انصاف کے جلسے میں عجیب منظر دیکھا ایسے لگ رھا تھا جیسے لوٹ سیل لگی ھو لوگ کرسیاں اٹھا کر بھاگ رھے ھیں ایسے لگ رھا تھا جیسے ھر کرسی صدارت کی کرسی ھو اور ھر کوئ اسے حاصل کرنا چاہ رھا ھو اس جلسے کی وڈیو دیکھ کر مجھے لگ رھا ھے عوام جاگ گئے ھیں انھیں اپنے حقوق کا بھی علم ھو چکا ھے اب سونامی کو آنے سے کوئ نہیں روک سکتا

مجھے اب اگلے جلسے کا انتظار ھے ایک لہر چل پڑی ھے  اگلے جلسے پہ کس چیز کی لوٹ سیل لگتی ھے میری دوست " م"  کہہ رھی ھے جس پارٹی میں جتنے لوٹے اور پانڈے ھوں اتنے لوٹے جو جلسے میں شامل حاظرین ھوں ان کو بانٹتنے چاییے - ان جلسے جلوسوں کا کوئ تو براہِ راست فائدہ عوام کہ بھی پہنچنا چائیے

روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے تنتالیس سال میں کچھ نہیں دے سکے انھیں چاہیے اپنا اگلا جلسہ چارہائیوں پہ کریں غریبوں کو سونے کے لیے چھت نہیں تو چارپائ مل جائے گی -

کسی نے کہا اگلے جلسے پہ جوتیاں چوری ھوں گی ۔ کسی نے کہا جوتیاں چلیں گی ۔ جوتیوں میں دال بٹ سکتی ھے تو جوتیاں چل بھی سکتیں ھیں

سب پارٹیوں کے لوگ اس واقعے پہ خوشی کا ظہار کر رھے ھیں - سب اپنی اپنی خیر منائیں - شاید عوام کا ایمان بھی اب یہ ھو گیا ھے ۔ جو جہاں ملے لوٹ لو پھر موقعہ ملے نہ ملے عوام سوئس بنک نہیں بھر سکتے اپنا گھر تو بھر ھی سکتے ھیں

لوگوں کا یہ عمل سیاست دانوں کے لیے لمحہ فکریہ ھے لوگوں کو بیان بازی میں کوئ دلچسپی نہیں - انھیں اس بات میں کوئ دلچسپی نہیں حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں انھیں اس بات میں بھی کوئ دلچسپی نہیں آمریت آتی ھے یا جمہوریت - وہ تبدیلی چاھتے ھیں ایسی تبدیلی تو سسٹم کو چینج کرے صرف چہرے نہ بدلیں غریب کے حالات بھی بدلیں -

Monday, November 7, 2011

عید مبارک قبول ھو




میری طرف سے سب کو میٹھی میٹھی سی عید مبارک قبول ھو
میٹھی عید تو عید الفطر ھوتی ھے چلیں سب کو چٹ پٹی سی گوشت بھری عید مبارک قبول ھو
جن لوگوں کے ہاتھ گوشت آیا انھیں بھی عید مبارک جب کے حصے میں کھال آئ انھیں بھی عید مبارک

جن لوگوں نے حقیقی معنی میں قربانی کی اپنے ساتھ غریبوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا ان کے لیے ڈھیروں دعائیں اور بہت بہت بہتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتت عید مبارک


















سب سے آخر میں ان لوگوں کے لیے یہ کارڈ ھے جن کو قربانی سے زیادہ کھالوں میں زیادہ دلچسپی ھے




Tuesday, November 1, 2011

میری پسند


سیاسی دنگل میں بیان بازی اور جگت بازی کے بعد شاعری کچھ اور بھی اچھی لگتی ھے - کچھ میری پسند کی غزلیں



تیرے عشق میں ھم نے کیا کیا نا دیکھا




ھم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد


میرے قاتل میرے دلدار میرے پاس رھو


Wednesday, October 26, 2011

زندگی اور موت


میں یہ تصویر کافی دیر تک دیکھتی رھی
کیا یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت نہیں


موت ۔۔۔ منوں مٹی تلے ۔ خالی ھاتھ دنیا کا سب مال و دولت دنیا میں رہ جاتا ھے
جب کوئ کسی کو دفناتا ھے تو کیا ایک پل کے لیے اسے اپنی زندگی کی حقیقت سامنے نہیں آتی
وہ یہ نہیں سوچتا کچھ عرصہ کے بعد اس نے بھی یہیں آنا ھے
کتنا بھی جی لے
پچاس سال ۔ ستر اسی یا سو سال ۔ اس دنیا کو چھوڑ کر سب آسائیشوں کو چھوڑ کر مٹی بن جانا ھے
اس تصویر میں موجود سبھی لوگوں میں سے کتنے ھیں جن کی روح ایک پل کے لیے لرزی ھوگی ۔ مجھے کسی کے چہرے پہ کچھ نظر آرھا -
یہ قبر ھے مادرِ جمہوریت کی جنھیں کے نام سے نوازا گیا وہ پندرہ سال سے ایک زندہ لاش تھیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں جب بھی جمہوریت کا نام آیا تو کبھی کسی نے ان کا نام نہیں سنا ان کی قربانیوں کا زکر نہیں سنا کبھی ان کی صحت یابی کی دعا کروائ گئ ۔ جب وہ زندہ تھی تو سب ایسے بھولے ھوئے تھے جب مر گئیں تو ھر کوئ ان کے گن گا رھا ھے
کیا ھی اچھا ھو جب انسان زندہ ھو تو اس کی خوبیوں کا زکر اپنی محبت کا زکر اس کے سامنے کیا جائے اس کو نوازا جائے
مگر یہ دنیا ھے ۔۔ اور ان کا تعلق تو سیاست سے تھا لگ رھا ھے ان کی زندگی سے سیاست کی گئ اور موت پہ بھی

Wednesday, October 12, 2011

جلتا ھے زمانہ کیوں



حکومت کسی کی بھی ھو اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ھے ۔ آمریت ھو تو بھی لوگ  خوش نہیں ھوتے ھر اقدام پہ تنقید کرتے ھیں مخالفت کرتے ھیں جب جمہوریت ھو تب بھی لوگوں خوش کرنا مشکل ھے 
کہا جاتا ھے مشرف کے زمانے میں فارم ہاؤس کا کلچر متعارف ھوا ۔ پہلے لوگ پلاٹ مانگتے تھے یا انھیں خوش ھو کر نوازا جاتا تھا مشرف کے دورِ حکومت میں رہائشی پلاٹوں کی دلچسپی میں کمی آگئ کیونکہ سب کو اچھی رہائش میسر تھی بادشاہ جب خوش ھوتا ھے تو وہ اپنے من چاھے لوگوں کو خوش کرتا ھے یہ تو صدیوں سے ھوتا آرھا ھے اگر مشرف صاحب نے ان لوگوں کو جو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ھیں یا جنھوں  نے ان کا ساتھ دیا انھیں دس پندرہ ایکڑ زمین کے معمولی ٹکڑے دے بھی دئیے تو کیا پہاڑ ٹوٹ پڑا کیا ھے اگر وہ معصوم لوگ فارم ہاؤس بنا لیں پتا نہیں زمانہ کیوں جلتا ھے ان ریٹائر آفیسروں کا بڑھاپا مصروف گزرے گا اپنے فارم ہاؤس پہ - غریبوں نے کیا کرنا ھے پلاٹ لے کر جو ڈھائ تین مرلے کے پلاٹ پر ایک پکا کمرا نہیں بنا سکتے 

عام سپاہی کی زندگی میں کوئ بدلاؤ نہیں آیا عام انسان کی زندگی میں بھی کوئ بدلاؤ نہیں آیا اب یہ اعتراض بھی کوئ اعتراض ھے بھئ عام انسان عام سی زندگی ہی گزارے گا خاص ھوتا تو کوئ بات بھی تھی ۔ عام 
آدمی سانس لے رھا ھے کیا اس کے لیے اتنا کافی نہیں ؟؟ پتا نہیں عام آدمی اتنا نا شکرا کیوں ھے 

آج کل ایک خبر گرم ھے جس پر بہت بحث چل رھی ھے ھمارے پیارے وزیرِ داخلہ محترم رحمان ملک صاحب کو اعزازی ڈگری سے نوازا گیا ھے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئ ھے اس پہ بھی لوگوں کو اعتراض ھے 

پہلے ھی پاکستان کی پچاس فیصد آبادی نا خواندہ ہے یہ تو حکومت کا بہت ھی احسن فیصلہ ھے ڈاکٹر بننے میں انسان کی آدھی عمر گزر جاتی ھے اچھا نہیں ایسے ھی لوگوں میں ڈگریاں تقسیم کر دی جائیں اس طرح موجودہ حکومت کے دور میں خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ھوگا اور جو انتخاب میں حصہ لینے کے لیے بی اے کی شرط تھی اس کا بہت موثر جواب ھوگی سب ارکانِ اسمبلی میں ڈگریاں تقسیم کرنی چاھئیے یہ پڑھا لکھا پاکستان بنانے میں ایک عملی قدم ھوگا سنا ھے بھارت کے سولہ ارکانِ اسمبلی پی ایچ ڈی ھے اس کے مقابلے پہ پاکستان کا ھر پالیمانِ اسمبلی  پی ایچ ڈی ھوگا اور جعلی ڈگریوں کا مسلہ بھی ختم ھوجائے گا 

چودہ اگست کے بعد بھی بہت شور و غوغلہ ھوا تھا جب ستارہ امتیاز سے لوگوں کو نوازا گیا تھا لوگوں نے کہا یہ اعزازات قوم کی امانت ھوتے ھیں اور قوم کی امانت میں خیانت کی گئ ھے یہ بھی کوئ بات ھے قومی اعزاز اگر قوم کے معزز نمائندوں میں تقسیم کر دئیے تو کون سا قیامت آگئ ایک عام آدمی جس کو کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رھی وہ تمغوں کا کیا کرے گا چاٹے گا ؟؟؟
ویسے بھی چودہ اگست آزادی کا دن ھے اگر اس دن حکومت نے بھی تھوڑی سی آزادی کا اظہار کر دیا آمریت کے طویل دور کے بعد یہ دن نصیبوں سے ملے ھیں کیا پتا کل کیا ھو جائے سال بھر کے بعد پھر انتخابات ھو ں گے پتا نہیں پھر اپنی من مانی کرنے کا موقعہ ملے یا نہ ملے بیچاروں کو کچھ موج مستی کر لینے دو مگر نہیں کسی کو کیسے خوش دیکھ سکتے ھیں یہ دنیا بڑی ظالم ھے چار دن خوش بھی نہیں ھونے دیتی - پتا نہیں یہ دنیا اتنا جلتی کیوں ھے ؟؟

Tuesday, October 11, 2011

ایک خوبصورت آواز


اللہ سب کا رب ھے چاھے کوئ اسے مانے یا نہ مانے اسے نوازتا ھے جگجیت سنگھ جنھیں اللہ نے بہت خوبصورت آواز سے نوازا اور اس کا استعمال انھوں نے خوب کیا پرانی شاعری کو زندہ کیا غزل کو زندگی دی
مجھے شاعری پسند نہیں تھی سمجھتی تھی بےکار لوگوں کا کام ھے غزلیں سننے کے بعد شعروں کے بعد غور کرنے کے بعد شاعری سی عشق ھو گیا میرا خیال ھے جو انسان شعروں ادب سے محبت کرتا ھے وہ زندگی میں کبھی کسی سے نفرت نہیں کر سکتا
آج ایک انسان دنیا سے چلا گیا  انسان دنیا میں آتا ھی جانے کے لیے ھے ۔ انسان دنیا میں آتا ھے بچپن میں محبتیں سمیٹتا ھے جوان ھوتا ھے  محبتیں بانٹتا ھے وہ صلاحیتیں جو اس کے رب نے اسے عنایت کی ھیں انھوں بروئےکار لاتے ھوئے دنیا میں اپنا نام پیدا کرتا ھے
جگجیت سنگھ کو اللہ نے خوبصورت آواز سے نوازا اب کی آواز ان کی پہنچان بن گئ آج وہ ھم نہیں مگر ان کی آواز ھمیشہ گونجتی رھے گی
یاد تو رھیں گے ھمیشہ جب بھی خوبصورت گائیگی کا ذکر ھوگا
پنجابی گیت اور غزلیں انھوں نے کم گائے ھیں ۔ پنجابی ماھیئے اورٹپے پنجاب کا خوبصورت تحفہ  جگجیت اور چترا کی آواز میں






 گزرا زمانہ سب کو یاد آتا ھے خاص طور پر بچپن کا زمانہ

اپنی زندگی گزار کر خوشی اور غم کے ھر احساس سے بے نیاز ھو گئے اللہ مغفرت فرمائے


Sunday, October 2, 2011

گدھوں کی میٹنگ


یہ کائنات بہت بڑی ھے کر ملک ھر بستی کی اپنی کہانی ھے ایک کہانی مجھے آج سب کو سنانی ھے یہ صرف ایک کہانی ھے اگر آپ کو یہ اپنے آس پاس کی کہانی لگے تو بندی کچھ نہیں کہہ سکتی جو بھی مماثلت ھوگی وہ محض‌ اتفاقیہ بھی ھو سکتی ھے



کہتے ھیں ایک بستی میں گدھوں کا راج تھا بڑی خوبصورت بستی تھی ھر طرف ھریالی ھی ھریالی تھی مگر گدھوں کی غلط حکمت علمی کی وجہ سے حالت بگڑ رھے تھے گدھوں کو کھانے کا تو پتا تھا مگر اگانے کی فکر نہیں تھی کھیت کے کھیت اجڑ رھے تھے مگر انھیں کوئ فکر نہیں تھی وہ آس پڑوس کی بستیوں سے مانگ کر اپنی ضروریات پوری کر لیتے تھے بستی کے عام گدھے بھوکوں مر رھے تھے مگر حکمران گدھے اپنے حال میں اور اپنی کھال میں مست تھے حکمرانوں کے اس روئیے کو دیکھ کر دشمنوں نے سازشیں شروع کر دیں جب کسی نے ان پہ توجہ نہیں دی تو وہ بستی میں گھس آئے اپنی من مانی کرنے لگے نا ان ملک دشمن عناصر کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئ نا انھیں پکڑنے اور سزا دینے کے لیے کچھ کیا گیا

حالات بگڑنے لگے طاقتور بستی والوں نے انھیں دھمکی دی ان کے مطالبات مانے جائیں ورنہ ان کا چارا بند کر دیا جائے گا کسی بھی طرح کی کوئ امداد نہیں کی جائے گی  وہ سب جو اپنے حال میں مست تھے جنھیں پیٹ بھر کے کھانے کو مل رھا تھا یہ دھمکی سنتے ھی بلبلا اٹھے

سردار گدھے نے سب سردار گدھوں کو ایک میٹنگ میں بلایا تاکہ مل کر فیصلہ کیا جائے ان حالات میں کیا کیا جانا چاہیے -- چاہیے تو یہ تھا کوئ لائحہ عمل طے کیا جاتاتھا کوئ ٹھوس تجویزات ھوتی جن پر غوروفکر کیا جاتا اس کے بجائے اس پہ زیادہ توجہ دی گی کھانے کا مینو کیا ھو گا ھر طرح کی گھاس کہاں کہاں سے منگوائ جائے کون کون سا مشروب پیش کیا جائے گا مرکزی اسٹیج پر کون بیٹھے گا کس کو داھنے طرف جگہ دینی ھے کسی کو بائیں طرف بیٹھانا ھے آنے والے شرکاء کو بھی اس بات کی زیادہ فکر تھی کون سی ٹائ لگائ جائے کون سا سوٹ پہنا جائے گا کس کی کس طرح ڈھکے چھپے انداز میں طنز و تحقیر کرنی ھے سب محب الوطن گدھے یہ سوچ کر آئے تھے کون سا بیان دینا ھے جو بریکنگ نیوز بن سکے کوئ ایسا بیان جس سے میڈیا میں اور عام گدھوں میں بئے جا بئے جا ھو جائے عام گدھوں کی دکھتی رگ کو کیسے چھڑا جائے ان کو جذباتی کر کے اپنی سیٹیں پکی کی جائیں

سب میٹنگ میں ایک دوسرے ایسے مل رھے تھے جیسے عید میں یا کسی ٹی پارٹی میں آئے ھوئے ھیں ان کے لیے یہ ایک پارٹی ھی تھی انھیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں تھا وہ جب بھی صبح اٹھتے اپنی کھڑکی سے باھر دیکھتے تو انھیں اپنے محل کی بلند و بالا محفوظ دیواریں نظر آتیں درجنوں محافظ نظر آتے ھرے بھرے دالان نظر آتے تو وہ کیسے محسوس کر سکتے تھے عام گدھے کس بے یقینی اور بدامنی میں زندگی بسر کر رھے ھیں وہ بیرون ِ ملک اپنے بچے اور اثاثے محفوظ کر چکے تھے



ایک طویل میٹنگ ھوئ جس میں ھر کوئ اپنی ھانک رھا تھا کسی کو اپنی عقل و دانش کی دھاک بیٹھانے کی جلدی تھی کسی کو اپنی طاقت کا نشہ ۔ کسی نے بھی تلخ حقائق کافکر و تدبر سے حل پیش نہیں کیا حکمران گدھوں کی نظر میں یہ میٹنگ ان کی عظیم قیادت کی کامیابی کی دلیل تھی میٹنگ کسی بھی نتیجے پہ پہنچے بغیر ختم ھوگئ مگر سب شرکاء خوش تھے کسی کا خیال تھا اس کا بیان اتنا زبردست ھے جس کے بنا پر اسے پر خلوص قائد کے طور پر مان لیا جائے گا کسی نے مسقبل کے بارے میں اچھے بیان دئیے تھے جس کی بنا پر اسے یقین تھا ائندہ ووٹ اسے ھی ملیں گے حکمران پارٹی خوش تھی وہ اپنی مدت پوری کر لے گی اور آئندہ بھی وہ عام گدھوں کا مذید گدھا بنا سکے گی وہ اس خوشی میں دو باتیں بھول گئے کہ ان کی ناک میں نکیل ڈلی ھوئ ھے اور نکیل ڈالنے والا انھیں کبھی بھی اپنی مرضی سے کہیں بھی ہانک سکتا ھے سب گدھوں نے مل کر اس کا حل نہیں سوچا انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا وہ امداد بند کرنے کی دھمکیوں سے کیسے جان چھڑا سکتے ھیں کیسے اپنے کھیتوں کر ھرا بھرا کر سکتے کیسے اپنی وہ بے جان دولت جس میں ان کی جان تھی جو دشمن بستیوں میں بےکار پڑی تھی اسے اپنی بستی کے مسائل حل کر سکتے ھیں اگر اتنی عقل ھوتی تو نا ان کے ناک میں نکیل ھوتی نہ وہ گدھے کہلاتے اور ان کو اپنا سردار بنانے والے اور بھی گدھے تھے اگر گدھے نہ ھوتے تو ان کی آنے والی نسلوں کو بھی اپنا سردار تسلیم نہ کر لیتے

Monday, September 19, 2011

یاد دلانا تھا



کہتے ھیں روز کا آنا جانا اھمیت کھو دیتا ھے مگر کبھی کبھی آنا جانا کچھ زیادہ کم ھو جائے تو لوگ بھول جاتے ھیں ۔ لکھنے کو کچھ نہیں یہ تحریر اس لیے لکھ رھی ھوں کہ بلاگ زرا سانس لیتا رھے لوگ بھول ھی نا جائیں کہ کوئ سعدیہ بھی تھی
زندگی اور موت میں کچھ فرق تو ھونا چاھئے اگر زندگی میں چپ رھیں تو زندوں میں کون شمار کرے گا سوچا منہ کھولا جائے کچھ تو بولا جائے
انسان دنیا میں آتے ھی اپنے وجود کا اظہار چلا کر کرتا ھے اور زندگی بھر کبھی خوشی میں خوشی سے چیختا ھے غم میں دکھ سے چلاتا ھے اور جب مرتا ھے تو منہ کھولا ھوتا ھے کوئ بات منہ میں رہ جاتی ھے

رات کے وقت مرنے کی بات نہیں کرنی چاھیے کوئ بری بات بھی نہیں کرنی چاھئیے ورنہ خواب بھی برے آتے ھیں

آج سیارہ پر گئ کچھ لکھنے والے تو موسلادھار لکھ رھے ھیں کچھ لوگ چپ سادھے بیٹھے ھیں کچھ بلاگر کافی عرصے کے بعد لکھتے ھیں مگر کرتے دھماکہ ھیں دھشت گردوں جیسا دھماکہ نہیں ذوالفقار مرزا جیسا
کچھ رحمان ملک کی طرح آنے والے امن کی خبر دیتے ھیں مگر جیسے رحمان ملک کی بات کا کوئ نوٹس لیتا ایسے ھی لکھنے والے کی بات پہ بھی لوگ یقین نہیں کرتے

مجھے  آج کل شاعری اچھی لگ رھی ھے کچھ اشعار پڑھ کر تو سوچتی ھوں اگر میں کوئ شہنشاہ ھوتی تو شاعر کا منہ موتیوں سے بھر دیتی - یہ نا ممکن بات ھے میں شہنشاہ کیسے ھو سکتی ھوں ۔۔۔ خیر ----

بلاگ پہ حاضری لگ گئ ۔۔ یہ ثبوت کافی ھے کہ میں زندہ ھوں ۔۔۔۔۔ یہی یاد دلانا تھا

Tuesday, September 6, 2011

اے وطن کے سجیلے جوانوں ۔۔۔


 چھ ستمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا دن جس کا ذکر ساری قوم سر اٹھا کر
کرتی ھے ۔ یہ دن ھے ان نوجوانوں کے نام جنھوں نے اپنی قوم کا دفا ع کیا اپنی جانوں کی قربانی دی ان سب نوجوانوں کے نام جنھیں قومی اعزاز سے نوازا گیا وہ جو بے نام شہید ھوئے ۔ بے نام اس لحاظ سے انھیں کسی اعزاز سے نوازا نہیں گیا مگر انھوں نے اپنی مٹی کے قرض اتار دیا ان غازیوں کے نام
جو سرحدوں کی حفاظت کے لیے لڑے



ان شہیدوں کے جذبے کو سلام  - ان سب غازیوں کو سلام جو اپنی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لڑے جانیں نچھاور کیں  اپنے جذبات کا اظہار شاید میرے پاس الفاظ نہیں یہ قومی نغمہ سنا اور بہت بار سنا اور اس محبت کی شدت کو محسوس کیا جو شاعر بیان کر رھا ھے آپ بھی سنیں ۔

مختلف  آمر وں نے فوج کے کردار کو داغدار کیا مگر یہ حقیقت آج بھی ھماری فوج کے معمولی تنخواہ پانے والوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت کا جذبہ جوان ھے اور قربانی کے جذبے سے سرشار ھیں بچپن سے اپنی فوج سے مجھے عشق تھا جو ابھی تک قائم و دائم ھے میری فیملی کے بہت سے لوگ فوج میں تھے میں کسی بھی فوجی کو دیکھ کر سیلوٹ کیا کرتی تھی آج بھی کرتی ھوں

Thursday, September 1, 2011

ھر چھوٹے بڑے کو عید مبارک



عید مبارک



سب کو بہت بہت عید مبارک ۔۔ سب کی عید امید ھے اچھی گزری ھوگی - 
شیطان  آزاد ھو گیا رمضان میں گانے نہیں سنے اب عید کی مبارک باد گانوں کے زریعے  دے رھی ھوں کس کو کس طرح کے گانے پسند ھے ۔ میرے پسندیدہ سنگرز میں سمیع یوسف ھیں سب سے پہلے سمیع یوسف 


جن کو انگلش میوزک پسند ھے ان کے لیے عید کا تحفہ 


جو ھنسی خوشی عید منا رھے ھیں ان کے لیے یہ گانا


جو کسی سے جدا ھے اور یادوں کے سہارے عید گزار رھے ھیں ان کے لیے یہ گانا 



جن کو پرانے گانے اچھے لگتے ھیں پرانے گانوں سے ان کی یادیں وابسطہ ھیں ان کے لیے یہ گانا



جن کو قوالیاں پسبد ھین ان کے لیے یہ گانا 


Sunday, August 28, 2011

عید کا تحفہ


یہ دنیا کسی کا احسان نہیں مانتی - اس دنیا میں کون کسی کا سوچتا ۔ کون کس کے لیے جیتا ھے ھر کسی کی اپنی زندگی ھے - فرض کریں آپ کے پاس دنیا کی ھر نعمت موجود ھے ۔ آپ کے پاس اتنا کچھ ھے جو آنے والی سات نسلوں کے لیے کافی ھو ۔ آپ شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے زندگی گزار سکتے ھوں - مگر آپ اپنی زندگی نہیں جیتے اپنی زندگی عام انسانوں کے لیے وقف کر دیتے ھیں ۔ اپنی زندگی کی خوشیوں‌ کو انجوائے بھی نہیں کر سکتے اس لیے کہ آپ دنیا کے لیے کچھ کرنا چاھتے ھیں
تو آپ کیا ھوں گے ایک ماہان انسان - اگر آپ اپنے لیے کچھ نہیں سوچتے اپنی کوئ فکر نہیں‌کرتے تو لوگوں کو آپ کے لیے سوچنا چاھئیے ۔۔ ھیں نا ؟؟

اب آپ بتائیں ھمارے کون سے سیاست دان ھیں جن کے گھر میں فاقے ھوتے ھیں ؟؟؟
ایسے کتنے سیاست دان ھیں جن کے بنک ان کے دماغوں کی طرح خالی ھیں ؟؟
ایسے کتنے سیاست دان ھیں جو غریب پیدا ھوتے ھیں ساری عمر عوام کی خدمت کرنے کے بعد غریب ھی مر جاتے ھیں ؟؟
پھر بھی دیکھیں ان کی زندگی کیا ھے ۔ اپنے بنکرز میں قید رھتے ھیں کھلے عام گھوم نہیں سکتے ھر وقت اپنی جانوں کا خطرہ رھتا ھے آخر کس لیے کیوں ان کی جانوں کو خطرہ رھتا ھے اس لیے کہ وہ عام انسان نہیں سیاست دان ھیں وہ سیاست کس لیے کرتے ھیں عام لوگوں کے لیے میرے لیے آپ کے لیے - ان کے لیے سوچنا کس کا فرض ھے ۔ ان کا تو پیسہ بنکوں میں رھتا ھے اور جنت میں جانے کا ویزہ آ جاتا ھے دنیا کی دولت دنیا میں رہ جاتی ھے دنیا کے مزے بھی ھوا ھو جاتے ھیں
آپ نے عید پہ انھیں کوئ تحفہ دینے کا سوچا ھے ؟؟ نہیں نہ
میں نے سوچا ھے میں چاھتی ھوں سب سیاست دان مل کر عید منائیں
کچھ وقت اکٹھا گزاریں خوش ھوں بے فکر ھو کر کچھ دن جی لیں ۔ آپ کو حیرت ھو رھی ھوں گی میرے دل میں اپنے سیاست دانوں کی اتنی محبت کیسے جاگ گئ
آپ کا پریشان ھونا کوئ حیرت انگیز بات نہیں - بس انسان کے بدلنے میں وقت ھی کتنا لگتا ھے میری بھی سوچ بدل گئ ھے آپ حیران ھو رھے ھوں گے میں عوام کو کوئ تحفہ دینا چاھتی مگر حکمرانوں کو تحفہ دینا چاھتی ھوں ۔ تحفہ کیا ھے یہ جانتے ھیں
میں اپنے سیاست دانوں کو عید پہ برمودا ٹرائ اینگل بھیجنا چاھتی ھوں پورا جہاز بھر کے سب سیاست دان کو سیاست میں ھیں یا سیاست کے میدان سے باھر

آپ برمودہ ٹرائ اینگل کے بارے میں نہیں جانتے تو گوگل کریں وکی پیڈیا پہ بھی کافی معلومات مل جائیں گی ایک ویڈیو لگا رھی ھوں
اسے دیکھ آپ کو اندازہ ھو جائے گا تحفہ میں سیاست دانوں کو دینا چاھتی مگر دل میں عوام ھی ھیں

Friday, August 26, 2011

بچپن کا رمضان


وقت کتنی جلدی گزر جاتا ھے ایسے لگتا ھے وقت کو پر لگ گئے ھیں بھاگ نہیں رھا اڑ رھا ھے ابھی لگتا ھے انتظار کر رھے تھے رمضان آنے والا ھے اور آج جمعتہ الوداع بھی گزر گیا

پاکستان میں پتا نہیں اب رمضان کیسا آتا ھوگا جیسا ھم نے گذارا تھا بچپن میں ۔ اب بھی ویسی ھی رونق ھوتی ھوں گی سحری سے پہلے بھی مسجد سے اعلان شروع ھو جاتا تھا سحری جگانے والے بھی آتے تھے پھر سارا دن سب کو اتنے فخر سے بتاتے تھے آج ھمارا روزہ ھے پھر افطاری کا انتظار - بازار میں رونقیں - مزے مزے کی خوشبو ئیں اور کھانے - چاند رات کی رونق عید کا مزا -یہاں پر ھر تہوار خاموشی سے گزرتا ھے نہ قریب کوئ مسجد ھے جہاں مسجدیں ھیں بھی وہاں بھی لاؤڈ سپیکرز استعمال کی اجازت نہیں - بازار ویسے ھی خاموش ھوتے ھیں جیسے سارا سال ھوتے ھیں رمضان کی رونق یہاں کہاں ۔ ہاں ایک فرق ھوتا ھے یہاں کی مارکیٹوں میں کھجوریں مل جاتی ھیں رمضان میں ۔ نہ چاند رات کی رونق ھوتی ھے نہ عید کا پتا

خوشیاں اور غم اپنوں کے ساتھ منانے میں سکون ملتا ھے خوشی میں جب  آپ کے ساتھ آپ کے اپنے خوش ھوتے ھیں تو خوشی دوبالا ھو جاتی ھے اور غم میں جب کوئ آپ کے آنسو صاف کرنے والا ھو تو غم آدھا رہ جاتا ھے

آج پاکستان بہت یاد آرھا ھے یہاں عید پہ باربی کیو بھی ھوگا ملنے والے بھی ھوں گے مگر وہ مزا نہیں  ھوگا جو اپنے سب کے ساتھ مزا آتا تھا اور خوشی ملتی تھی

Tuesday, August 23, 2011

بھتہ خور اور عبرتناک کاروائ



وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی مشترکہ صدارت میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں اجلاس ھوا
’اجلاس میں شرپسندوں اور بھتہ خوروں کو وارننگ دی گئی کہ وہ فوری کراچی چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں بصورت دیگر
ان کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی جائے گی اور یہ کارروائی عبرتناک ثابت ہوگی۔‘

اس علان کے بعد اور سخت کاروائ کے بعد سے سب دھشت گرد دھشت کا شکار ھیں وہ سمجھ نہیں پا رھے وہ کراچی چھوڑ کر کہاں جائیں 
وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کسی خاص علاقے کا اشارہ نہیں کیا حیدر آباد جائیں یا سکھر کا رخ کریں لاڑکانہ جائیں یا رائے ونڈ کا رخ کریں یا لاھور خادمِ اعلیٰ کی خدمت میں حاضر ھو کر اپنی خدمات پیش کریں یا اسلام آباد کو آباد کریں
کراچی کے لوگوں سے بھتہ وصول کر چکے ھیں ملک میں اور بھی صعنت کار اور تاجر حضرات ھیں اور پورے سکون سے اپنے کاموں میں مصروف ھیں
بھتہ خور دوسرے شہروں میں جا کر اپنی کاروائیوں کو جاری رکھ سکتے ھیں حکومت ان کے جذبات کو سمجھتی ھے وہ جانتی ھے چور چوری سے تو جا سکتا ھے ہیرا پھیری سے نہیں کسی کی روزی روٹی پہ لات مارنا قابل ِ تعریف عمل نہیں اس لیے بھتہ خوروں کو کاروائیاں  چھوڑنے کا نہیں صرف شہر چھوڑنے کا حکم دیا گیا ھے جس طرح حکم دیا گیا ھے لگتا ھے گزارش کی گئ ھے مگر عبرت ناک کاروائ کی دھمکی کی وجہ سمجھ میں‌ نہیں  آئ روشنیوں کے شہر کو موت خوف اور دھشت کا شہر بنانے والوں کے خلاف حکومت کس طرح کی کاروائ کرنے کا ارادہ رکھتی ھے


عوام جاننا چاھتے ھیں عبرت ناک سزا سے کیا مراد ھے کیونکہ آج تک پاکستان میں کسی کو عبرت ناک سزا دی نہیں گئ عوام نے اعزاز ملتے ھوئے دیکھیں ھیں یا کسی کو سزا دینی ھو تو اسے اسپیشل طیارے میں  سعودی عرب بھیج دیا جاتا ھے یا پورے وقار کے ساتھ گارڈ آف آنر دے کر پاکستان سے رخصت کر دیا جاتا ھے ھر دور میں عبرت کا نشان بے چارے عوام ھی بنتے ھیں چند دنوں میں واضع ھو جائے گا عبرت ناک کاروائ سے کیا مراد تھی اور خون کی ھولی کھیلنے والوں کا انجام کیا ھوا امید ھے اس دھمکی کے بعد کوئ ماں کا لال کوئ بھتہ خور دھشت گرد کراچی کا رخ نہیں کرے گا اور جو کراچی میں رہ رھے ھیں وہ اب تک اپنا سامان باندھ  کر کراچی سے کوچ کرنے کا بندوبست کر چکے ھوں گے
آخر کار ھمارے وزیرِ داخلہ کا حکم کوئ کیسے ٹال سکتا ھے دنیا میں مجرموں کو سزائیں دی جاتی ھیں پاکستان میں دھمکیاں دی جاتی ھے
کچھ لوگوں کا تو خیال ھے دھمکی بھی ایسے دی جاتی ھے جیسے والدین اپنے پیارے بچوں کو سرزنش کرتے ھیں کبھی کبھی تو جان سے مارنے تک کی دھمکی دیتے ھیں کبھی ٹانگیں توڑ دینے کا بھی کہا جاتا ھے مگر نافرمان اور لاڈلے بچے جانتے ھیں وہ کچھ بھی کر لیں نہ ماں ٹانگیں توڑے گی نہ باپ جان سے مارے گا کہیں یہ عبرت ناک سزا کی دھمکی بھی کچھ ایسی دھمکی نہیں ؟؟؟
کیا ھم کچھ دنوں میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کو سرِ عام لٹکتا ھوا دیکھیں گے ؟؟
کیا بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے عبرت ناک سزا پائیں گے ؟؟
یا سب دھشت گرد کچھ دن کی چھٹیاں منا کر  تازہ دم ھو کر  واپس آجائیں گے ؟؟؟

Monday, August 22, 2011

مکس مصالحہ


اس کا کیا عنوان ھو سکتا ھے بہت سی باتیں ھیں اس تحریر کو مکس مصالحہ سمجھ لیں
چودہ اگست کو ایسے بہت سے لوگ جنھوں نے قوم کے لیے کچھ نہیں کیا انھیں قومی اعزاز سے نوازا گیا اس میں کوئ ایسی حیرت کی بات نہیں حیرت تب ھوتی جب اعزاز دیتے ھوئے میرٹ کو مدِ نظر رکھا جاتا بہت سے لوگ ابھی تک اس پہ اپنی حیرت کا اظہار کرتے نظر آتے ھیں اب حالات ایسے ھیں ملک میں کچھ پل سکون کے گزر جائیں اور کچھ نہ ھو تو یہ بریکینگ نیوز ھوتی ھے دھماکے یا ٹارگٹ کلنگ کوئ خبر نہیں آپ کے خیال میں خبر کیا ھوگی کتے نے انسان کو کاٹا یا انسان نے کتے کو کاٹا ۔ کتا ایسے ھی بد نام ھوتا ھے آج کل تو انسان ھی جانور بنا ھوا ھے
خبر نمبر دو  ٹارگٹ کلنک گرل فرینڈز اور بیویاں کروا رھی ھیں ---- مفکرِ پاکستان رحمان ملک ----- سیاست دانوں کی گرل فرینڈز اور بیویاں کہاں سو رھی ھیں عوام کا سوال - وہ سب این جی اوز جو پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رھی ھیں انھوں نے اس خبر پہ کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا وہ کام جو یورپ کی خواتین نہیں‌کر رھیں وہ اپنی ملک کی خواتین کر رھی ھیں - ملک ترقی کی راہ پہ گامزن ھے
رحمان ملک کا کہنا ھے ان کے پاس کوئ جادو کی چھڑی نہیں ھے جو حالات کو جلد معمول پہ لے آئیں ۔ اب سوال یہ ھے اگر انکے پاس جادو کی چھڑی نہیں ھے تو دھشت گردوں کے پاس وہ کون سی جادو کی چھڑی ھے جس کے بل بوتے پر وہ کاروائ کر کے غائب ھو جاتے ھیں دھشت گرد با حفاظت اپنے ٹھکانوں پہ پہنچ جاتے ھیں مگر عام لوگ بوری میں بند کر کے باحفاظت ندی میں بہا دیئے جاتے ھیں

 پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آخر کار کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔ سینکڑوں زخمی درجنوں لاپتہ افراددرجنوں بوری بند لاشوں مسخ شدہ لاشوں دن رات کی فائرنگ کے بعد ھمارے محترم چیف جسٹس کی آنکھ کھل گئ اور انھوں نے از خود نوٹس لےلیا حیرت ھے یہ کام انھوں نے ازخود کیسے کر لیا کیا قومی اخبارات نے نیوز چینلز نے انھیں اس طرف متوجہ نہیں کیا تھا ۔ ھمارے عظیم حکمران واقعات کی مذمت کر کے سو جاتے ھیں ان کے بیانات سے ان عوام کو کوئ دلچسپی نہیں ھے اب کے بیانات کا اثر نہ عوام پہ ھوتا ھے نہ ان کی دھمکیوں کی دھشت کا اثر دھشت گردوں پہ ھوتا ھے آنکھیں نکالنے کی دھمکیاں منہ توڑ جواب دینے کے دعوے کمر توڑ دینے کی خوش خبری آھنی ھاتھوں سے نمٹنے کا دعویٰ
سب جانتے ھیں وہ صرف اپنی مدت پوری کرنا چاھتے ھیں کسی کی قیمت پر کسی بھی صورت میں ۔ سرکاری خزانہ انکےپاس ھے اس لیے ھر قیمت ادا کر سکتے ھیں -

حکمران طبقہ ان واقعات کو ابھی اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رھا کیونکہ وہ رمضان کا بابرکت ماہ میں افطاریوں کے مزے لوٹنے میں اور روٹھنے منانے میں مصروف ھیں ایک اپوزیشن پارٹی انقلاب لانے کے دعوے کر رھی ھے اور ایک اتحادی پارٹی کو اپنی محبوبانہ ادائیں دیکھانے سے فرصت نہیں مل رھی وہ فیصلہ نہیں کر پا رھے کہ مل کر کھانا ھے یا الگ اپنا حصہ لینا ھے جمہوریت کا کھیل کھل کر کھیلا جا رھا ھے عوام اس عوامی حکومت سے تنگ آگئے ھیں انھیں یہ سمجھنے میں وقت لگا ھے جمہوریت بہترین انتقام ھے اور اس انتقام کا نشانہ عوام بن رھے ھیں وہ اس کے حقدار بھی ھیں آخر انھوں نے کئ سال آمریت کو برداشت کیا ھے
وہ برداشت کا ایک کامل نمونہ بن رھے ھیں سونا آگ میں جل کر کندن بن جاتا ھے قوم جمہوریت کی آگ میں جل کر کندن بن رھی ھے ۔ عوام مسلسل جل رھے ھیں  زیادہ جل جانے سے ھر شے کوئلہ بن جاتی ھے کوئلہ خود تو جلتا ھے دوسروں کو بھی جلاتا ھے بہت سے لوگوں کا خیال ھے وہ لوگ جو سونے سے کندن بنے پھر کوئلہ بن گئے وہی دھشت گردی کی واردات میں ملوث ھیں خود جل جانے کے بعد دوسروں کو جلا کر تسکین پا رھے ھیں

Sunday, August 14, 2011

جنون سے اور عشق سے ملتی ھے آزادی


جنون سے اور عشق سے ملتی ھے آزادی ۔۔ کچھ جنونی لوگ خالی ھاتھ ایک عزم لے کر اٹھے اور کچھ لوگوں کا گروہ ایک قافلے میں بدلہ پھر کارواں ۔
اور یہ کارواں ھر مشکل کا سامنا کرتا ھوا منزل تک پہنچ گیا اگر عزم سچا ھو تو منزل پا سکتے ھیں



دل سے ھم سب پاکستانی ھیں پھر راستے کی رکاوٹ کون سی ھے کیا وہ رکاوٹ ان مشکلات سے زیادہ ھیں جو پاکستان بننے سے پہلے تھیں ؟؟؟ کیا ھم اس وقت کمزور نہیں تھے



کہتے ھیں زمین میں کشش ِ ثقل ھوتی ھے ۔ شاید پاکستان کی زمین میں یہ کشش بہت زیادہ ھے میں کہیں بھی چلی جاؤں مجھے یہ اپنی طرف کھینچتی ھے جو محبت اس سر زمین سے ھے وہ دنیا کی کسی بھی جگہ سے نہیں کتنا حسن ھے اس سر زمین میں - اگر کوئ کمی ھے تو وہ عوام اور حکمرانوں میں ھے --




Saturday, August 13, 2011

سورج کہاں کھو گیا






اکتوبر سے مارچ تک چھ ماہ سردی کے ھوتے ھیں اپریل شروع ھوتے ھی لوگ اس امید پر آنکھ کھولتے ھیں کہ سورج کے دیدار ھو ں گے مگر سورج کسی نا راض محبوب کی طرح بدلیوں میں چھپا رھتا ھے کبھی کبھی جھلک دیکھاتا ھے پھر غائب

مئ میں کبھی بادل کبھی بارش یہ سلسلہ چلتا رھا مگر دل کو امید تھی ابھی تو گرمی شروع نہیں ھوئ ابھی بہار کا موسم ھے جون جولائ اگست گرمیوں کے مہینے ھیں جون بھی بادلوں میں سورج کو تلاشتے ھوئے گزر گیا جولائ میں امید ھوئ اب تو گرمی پڑے گی مگر امیدوں پہ برف پڑ گئ ۔ یہ کہنا مناسب ھوگا امیدیں بارش میں بہہ گئیں اب اگست بھی آدھا گزر گیا کل خبروں میں موسم کے حال بتانے والا بہت دکھ سے بتا رھا تھا یہ ھفتہ بھی بارش کی نظر ھو جائے گا لوگوں کے انٹر ویو کر رھے تھے کچھ لوگوں کے تبصرے بہت مزے کے تھے
ایک کا کہنا تھا گرمیاں گرمی کے انتظار میں گزر گئ
ایک کہہ رھا تھا خزاں دھلیز تک آگئ گرمی کب آئ گی اب یہ مناسب ھوگا سال میں چار موسم ھوتے ھیں بہار ،  ایک گھٹیا موسم ، اس نے ایک لفظ بولا تھا جو قابل ِ تحریر نہیں ھے ، خزاں اور سردیاں
سب سے مزے کا تبصرہ ایک ڈاکٹر نے کیا جو سمندر کے کنارے جیکٹ پہنے چھتری لیے گھوم رھا تھا وہ کہہ رھا تھا لگتا ھے سورج بھی دھوپ سینکنے کے لیے گرم ممالک کی سیر کو نکل گیا ھے

پاکستان کسی کو بتاؤ کیسا موسم ھے تو سب کہتے ھیں واؤ کیسا زبردست موسم ھے مگر وہ تو آپ نے بھی سنا ھوگا روز روز کا آنا جانا قدر کھو دیتا ھے شاید یہی یہاں کا حال ھے بارش کی قدر نہیں رھی  میں پاکستان میں بارش کی دیوانی تھی اب دھوپ دیکھ کا کھل جاتی ھوں

یہاں پر لوگ سال میں دو مرتبہ سیر کے لیے جاتے ھیں ایک بار موسم سرما میں اور ایک بار گرم ممالک کی طرف رخ کرتے ھیں  متوسط  طبقے والے کوشش کرتے ھیں گرمیوں ایک بار اپنے ھی ملک میں سمندر کے کنارے یا کسی جھیل کے آس پاس ابھی چھٹیاں گزاری جائیں دل بھر کے دھوپ میں گزارا جائے - اایک خاتون کہہ رھی تھی اس بار موسم گرما کے کپڑے ھینگروں پہ لٹکے رہ گئے ویسے موسم سرما میں کوٹ اور اسکارف لیے ھوئے سارا یورپ مسلمان لگ رھا ھوتا ھے گرمیوں میں فرق واضع ھو جاتا ھے

یہ لوگ سن باتھ لیتے ھیں جوکنگ کرتے اور سائیکل چلاتے نظر آتے ھیں یہ صحت کے لیے بہت ضروری ھے یہاں سورج بہت کم نکلتا ھے جس کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی ھو جاتی ھے بچے کو پیدائش کے بعد دو سال تک وٹامن ڈی کی گولیاں دی جاتی ھیں کیونکہ دو سال کا بچہ بہت کم کھلی ھوا اور دھوپ میں نکلتا ھے وٹا من ڈی کی کمی کے باعث ھڈیوں اور دانتوں کی صحیح نشرونما نہیں ھوتی اگر بچے میں بچپن سے وٹا من ڈی کی کمی ھو تو وہ ھڈیوں اور دانتوں کی مختلف بیماریوں کا شکار ھو جاتا ھے ۔ پسینہ آجانے سے جسم کے بہت سے فاضل مادوں کا اخراج ھو جاتا ھے اور پیاس کھل کر لگتی ھے

پاکستان مین سردیوں کے موسم میں خود کش حملے بڑھ جاتے ھیں اور یورپ میں خود کشیاں بڑھ جاتی ھیں تنہائ کا شکار لوگ مذید تنہائ کا شکار ھو جاتے ھیں گرمیوں میں بوڑھے لوگ اپنے گھروں کا لان کے سجاتے سنوارتے نظر آتے ھیں یا پارکوں کے بینچوں پہ بیٹھے آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر مسکراتے رھتے ھیں برف باری میں پارک بند ھو جاتے ھیں اور گھر ےک لان بھی برف سے ڈھک جاتے ھیں دن کی روشنی نو بجے کے بعد پھیلتی ھے اور اندھیرا چار بجے کے بعد پھیل جاتا ھے چھ ماہ ایسا ھی موسم رھتا ھے ڈپریشن کے مریضوں کا ڈپریشن مذید بڑھ جاتا ھے یہاں پر ھر سہولت کے موجود ھوتے ھوئے بھی پاکستان کی نسبت یہاں ڈپریشن کے مریض زیادہ ھیں

خزاں دھلیز پہ آگئ اور موسم گرما آیا ھی نہیں ابھی پتے پیلے ھونا شروع ھو جائیں گے اور بہت سی کونپلیں ابھی دھوپ کی منتظر ھیں - انسان کسی حال میں خوش نہیں رھتا کوئ سورج کے تمازت سے تنگ ھے اور کوئ بدلیوں کی اوٹ سے نکلتے ھوئے سورج کا منتظر - ھمارا سورج کھو گیا ھے اگر وہ سیر کے لیے آپ کے علاقے میں آگیا ھو تو پلیز ھماری طرف بھیج دیں شکریہ -----




Wednesday, August 10, 2011

آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا بلاگ





کتنے دن کتنے ھفتے گزر گئے اپنے بلاگ کی یاد ھی نہیں آئ آج سوچا رمضان ھے عید بھی آنے والی ھے اپنے بلاگ کی جھاڑ پونچھ ھی کر لوں سنا ھے خالی گھر میں بھوت پریت بسیرا کر لیتے ھیں اور خالی بلاگ پہ ؟؟اس بارے میں‌تاریخ خاموش ھے


پاکستان جانے سے پہلے سے اب تک نیوز چینل دیکھنے سے پرھیز کر رھے ھیں سو راوی چین ھی چین لکھتا ھے اتنا سکون ھے کہ بلاگ پہ کچھ لکھنا یاد ھی نہیں رھا


اتنے دن کی غیر حاضری کی وجہ سے کافی دھول  اور گرد بلاگ پہ جم گئ تھی اب پھونکیں مار مار کر ھٹا رھی ھوں یہ ایک عام انسانی پھونکیں ھیں کسی عامل بابا کی پھونکیں نہیں اس کی وضاحت بھی بہت ضروری تھی یہ نہ ھو کوئ مجھے بہت پہنچی ھوئ ھستی سمجھ کر دم شم کروانے آجائے


سب کو رمضان مبارک ۔ اب کوئ یہ نہ کہے اتنی دیر میں مبارک ۔ دیر کی صحیح مبارک دی تو سہی - اللہ سب کی عبادات کو قبول فرمائے آمین اور باقی گیارہ ماہ بھی ایسے ھی بیبے بچے بن کر رھنے کی توفیق عطا فرمائے
سب شاد و آباد رھیں سب خوش ھنستے بستے رھیں اتنی دعائیں کافی ھیں مجھے بھی اپنی دعاؤں میں‌یاد رکھیں ------------------



Friday, July 15, 2011

ناکامی -----------------------

دنیا گلوبل ویلج بن چکی ھے دنیا کے کونے کی خبر پل بھر میں دنیا کے میڈیا کے سامنے آ جاتی ھے ۔
سفر آسان ھو گئے ھیں پہلے جس سفر میں عمر کٹ جاتی تھی اب ایک دن میں ھو جاتا ھے ایشیا کے لوگ یورپ  امریکہ کینیڈا آباد ھو چکے ھیں ان کے بزنس ھیں وہاں کی شہریت اختیار کر چکے ھیں تیسری نسل  جوان ھو چکی ھے اب وہی ان کا دیس ھے  عرب ممالک میں درجنوں فلائیٹ یورپی مما لک سے آتی جاتی ھیں

انگلینڈ چلے جائیں وہاں ایشیائ ممالک سے آئے ھوئے لاکھوں افراد آباد ھیں پورے کے پورے علاقے ان کے ھیں امن و اماں کا مسلہ نہیں ھوتا تعصب ھے مگر اس کا اظہار کھلے عام سامنے نہیں آتا جیسا پاکستان میں نظر آتا ھے سب شہریوں کو برابر حقوق حاصل ھیں ایک صوبے کا رہائیشی
دوسرے صوبے میں جاتا ھے تو اسے طعنہ نہیں دیا جاتا یہی حال پورے یورپ میں نظر آتا ھے

ایسے بیان بازی نہیں کی جاتی جیسے بیان پاکستان کے ٹی وی پہ آتے ھیں جنھیں بریکینگ نیوز کے طور پہ بار بار چلایا جاتا ھے جلتی پہ تیل چھڑکا جاتا ھے نمک پاشی کی جاتی ھے

لاکھوں لوگ جو خالی ھاتھ مغربی ممالک میں گئے تھے آج وہ رئیس ھیں سیاست میں حصہ لیتے ھیں جو کمایا ھے انھوں نے اپنی محنت سے کمایا ھے کوئ انھیں بھوکا ننگا ھونے کا طعنہ نہیں دیا حالانکہ وہ اس ملک کے شہری نہیں تھے پناہ گزیر تھے غلط ویزوں غلط طریقوں سے ملک میں آئے تھے آج وہی لوگ کروڑوں کا زرِ مبادلہ اپنے ممالک میں بھیج رھے ھیں

پاکستان میں ایک ملک کے رھنے والے ھیں  مگر ان کی پہنچان ایک نہیں کیا ھی اچھا ھو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانے کے لیے ویزا لازم کر دیا جائے اور حکومت کے طرف سےسب کو وہی حقوق حاصل ھوں جو مغربی ممالک یا امریکہ کے شہریوں کو حاصل ھیں ان کی جان و مال کی حفاظت ویسے ھی کی جائے جیسے اپنے مہمانوں کی جاتی ھے

جرمنی معاشی طور پہ ایک ترقی یافتہ ملک ھے یہ مثال ھے پاکستان کے لیے جب دیوار برلن گرائ گئ تو مشرقی جرمنی اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے  مغربی جرمنی سے بہت پیچھے تھا یہاں کے لوگوں نے مشرقی  جرمنی سے آنے والوں کو  اپنے گھروں  میں پناہ  دی ملازمت میں سب سے پہلا حق انھیں دیا گیا ھزاروں لوگ مغربی جرمنی کی طرف آئے یہی بس گئے بیس سال کا عرصہ گزرا ھے کہیں کوئ ذکر نہیں ھوتا کون مہاجر تھا کس نے کس کو پناہ دی اگر کوئ اپنے ملک میں روزگار کے لیے بہترین زندگی کے لیے نقل مکانی کرتا ھے تو یہ اس کا حق ھے اگر کوئ ان کی مدد کرتا ھے تو یہ اس کا فرض ھے

مغربی جرمنی کا سرمایہ وہاں لگایا گیا آج وہاں یونیورسٹیز بھی ھسپتال سڑکیں موٹر وے مغربی جرمنی کے معیار کی بن چکی ھیں نئ انڈسٹریز وہاں لگائ گئ ھیں تاکہ وہاں لوگ زیادہ آباد ھوں

آج کوئ مغربی اور مشرقی جرمنی کا لفظ استعمال کرتا جو بھی ھیں وہ جرمنی کے شہری ھیں کوئ حکومتی یا اپوزیشن کی پارٹی مہاجر کا لفظ یا اپنی قربانیوں کا ذکر نہیں کرتی وہ یہ ذکر نہیں کرتی اس نے اپنی قوم کے لیے  کیا کیا احسان کیے ملک کے ان غیر ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی کی کن بلندیوں پہ پہنچایا یہ ان کا احسان نہیں ان کا فرض تھا لوگوں نے انھیں منتخب ایسی لیے کیا تھا انھوں نے ووٹ ایسی لیے دیا تھا یہ ووٹ کا قرض تھا جو انھوں نے ادا کیا

اگر کسی ملک کی ترقی رک جاتی ھے ملک میں امن و اماں قائم نہیں رھتا تو یہ حکومت کی ناکامی ھے حکومت کی اپنی پالیسیوں پہ نظر ِ ثانی کرنے کی ضرورت ھے ترقی یافتہ ممالک پہ نظر ڈورائیں تو یہاں پیچھلی حکومت کی ناکامیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا اپنے پلان بنائے جاتے ھیں عوام سے وعدے کیے جاتے ھیں اگر وعدے پورے نہیں کیے جا سکتے تو اپنی نا کامی کا اعتراف کر کے حکومت سے اعلیحدگی اختئیار کر لی جاتی ھے ایسی  مثال پاکستان میں  نہیں ھے

کسی سیاسی شخصیت کو پوجا نہیں جاتا کسی کے نام سے جذباتی وابستگی کو ہتھیا ر بنا کر ووٹ نہیں وصول کیے جاتے نہ ھی کسی لیڈر کی اولاد کو ولی عہد کے طور پہ منتخب کیا جاتا ھے شاید اسی کا نام جمہوریت ھے پاکستان میں جمہوریت بہترین انتقام ھے شاید یہ جمہوریت سے انتقام ھے - اس انتقام کا نشانہ بے بس عوام بن رھے ھیں ۔ یہ تو ھمارے مہان سیاسی لیڈر بتا سکتے ھیں جو جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ھیں آمریت کے بعد جمہوریت نے عوام کو کیا دیا
کیا یہ پاکستان کے سب سیاسی لیڈرز کی ناکامی نہیں کہ وہ قوم کو ایک نہیں کر سکے - اگر ساری قوم ایک ھوگئ تو سیاست کس پہ کی جائے گی
ناکامی -----------------------

Sunday, July 10, 2011

پہلے آئیے پہلے پائیے

کیا آپ جنت میں جانا چاھتے ھیں ؟؟ مگر آپ کے نامہ اعمال ایسے ھیں جس کی وجہ سے آپ کو شک ھے جنت دھلی کی طرح دور ھے ۔ آپ کے اعمال آپ کی نامی اور بے نامی جائداد کی لسٹ کی طرح طویل اور کالی ھے نیت کے حساب سے بھی بد نیت ھیں آپ جنت بھی چاھتے ھیں اس کے لیے آپ کوئ محنت نہیں کر سکتے اپنے نفس کو قابو نہیں رکھ سکتے اپنے آپ بدل بھی نہیں سکتے تو یہ آپ کے لیے نایاب موقعہ ھے پہلے آئیے پہلے پائیے جنت میں جگہ کم رہ گئ ھے اس اسپیشل آفر کا فوراً فائدہ اٹھائیے


ٹھہیرئیے اگر آپ عام عوام ھیں تو یہ آفر آپ کے لیے نہیں ھے اس لیے کہ عوام تو پہلے ھی تھوک کے حساب سے جنت میں جا رھے ھیں فرشتے بھی پریشان ھیں کیا کریں یہ سیاست دانوں کے لیے اسپیشل آفر ھے یہ انصاف کی بات تو نہیں ھے عوام روزانہ درجنوں کے حساب سے جنت کو روانہ ھوتے ھے کئ برس سے یہ جنت جانے والا کارواں رک ھی نہیں رھا پاکستان کا کوٹہ پورا ھونے کو ھو گا
عوام کا ایک جم عفیر جنت میں اکٹھا ھو چکا ھے اور کوئ سیاسی لیڈر جنت میں نہیں


ویسے تو بھٹو بھی شہید ھیں ان کو پھانسی دینے والے مرد ِ مومن مردِ حق ضیاء الحق بھی جنتی ھیں شہید ھیں بی بی شہید ھیں جنتی ھیں وہ بھی مگر اتنے سے سیاسی لیڈر وں سے جنت میں کیا رونق لگے گی ان ھی لوگوں کی جنت میں حکمرانی ھوگی اب موجودہ سیاست دانوں بھی سوچنا چاھیے عمر سے سبھی پکے ھیں سیاست میں ابھی چاھے بچے ھوں سیاست کی الف بے سے نابلد ھوں مگر سیاست کے نام پہ گند ضرور کریں گے دولت سے اپنی عمر کم کرنے کی کتنی بھی کوشش کی ھو عمر کی اصلیت پھر بھی ظاھر ھو جاتی ھے


اگر ھمارے سیاست دان چاھتے ھیں ان کی آخرت میں بھی ایسی آرام و سکون کی زندگی میسر ھو تو اپنے اعمالوں کو بدل لیں اگر بدل نہیں سکتے تو زیادہ کچھ نہیں کر نا ھو گا بس کچھ دن عوامی زندگی جینا ھوگا
اپنے بنکرز سے نکلنا ھوگا جتنے بھی لوگ حفاظت پہ مامور ھیں ان کی چھٹی کر دیں ان سے کہیں وہ عوام کی حفاظت کریں جو ان کا کام ھے اور آپ خود پاکستان کی سیر کو نکل جائیں

اگر ڈرون حملے سے بچ جائیں تو کسی مسجد میں چلے جائیں کسی مزار کا رخ کریں یا پھر کسی عام متوسط طبقے کے کسی بازار میں چلے جائیں
اگر یہاں سے شہادت کے درجہ پانے سے بچ جائیں تو کراچی کے سڑکوں پہ واک پہ نکل جائیں جہاں کوئ نہ کوئ اپنا مسلمان بھائ نجانے کیوں اپنے نشانی بازی کے پریکٹس کرے گا اور نشانہ بے گناہ کو  ھمیشہ نشانے پہ لگتا ھے مجرم ھمیشہ صاف بچ نکلتا ھے مجرموں کو دیکھ کر گولی پتا نہیں کیوں سائیڈ سے نکل جاتی ھے


خیر اس سے پہلے کہ آپ کے مخالف آپ سے پہلے جنت پہنچ کر سارے ووٹر اپنی طرف کر لیں اور آپ منہ دیکھتے رہ جائیں بس پہلے آئیے اور پہلے پائیے جنت آپ سے بس چند قدم کے فاصلے پہ ھے دنیا سے جاتے جاتے کچھ دن ایک عام انسان کی زندگی بھی جی کر دیکھ لیں کھلے آسمان کے نیچے گرمی کا مزا اور گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا مزا مہنگائ کا مزا مہنگائ کے ساتھ فاقوں کا مزا خالی پیٹ دھشت کا مزا بے موت مرنے کا مزا

Thursday, July 7, 2011

موت کے سوداگر

میں نے اپنے بیڈ روم کی سیٹینگ چینج کی ایک سائڈ ٹیبل کو ھٹا دیا اب جب بھی میری نظر اس کونے کی طرف جاتی ھے تو ایک کمی محسوس ھوتی ھے ۔ڈرائینگ روم کی ایک دیوار سے پینٹنگ کو اتار دیا وہ روم کی کلر سکیم سے ساتھ میچ نہیِں ھوتی تھی اب دیوار کو دیکھتی ھوں تو ایک خالی پن کا احساس ھوتا ھے بے جان چیزوں سے ھمیں لگاؤ ھو جاتا ھے یا انھیں دیکھنے کی ھمیں عادت ھو جاتی ھے


کتنی عجیب بات ھے وہ چیزیں جو نہ ھمیں دکھ دیتی ھیں نہ خوشیاں ھم ان کی کمی محسوس کرتے ھیں


ھمارے جاننے والی ایک فیملی نے کچھ عرصہ پہلے کچھ طوطے گھر میں رکھے ان کے بچے ان سے کھیلتے دانہ ڈالتے تھے فارغ وقت انھیں دیکھتے تھے خوش ھوتے تھے ۔ پیچھلے ھفتے ایک طوطا بیمار ھوا ایک دن مر گیا بچے سارا دن اسے دیکھ کر روتے رھے رات کو گھر والوں نے کہا اب پھینک دو مر گیا ھے کب تک دیکھتے رھو گے مگر بچے راضی نہیں ھوئے پھر گھر والوں نے اس طوطے کا جنازہ پڑھا لان کے ایک کونے میں دفن کیا قبر بنائ بچوں نے اس پہ پھول ڈالے دعا کی بچوں کو تسلی ھوئ ان کا پیارا طوطا ان کے پاس ھے جب دل چاہے گا قبر پہ دعا کر لیا کریں گے ۔ ایک بے زبان جانور جب ساتھ رھتا ھے تو اس بھی لگاؤ ھو جاتا ھے اس کی بیماری اس کی موت پہ دکھی ھو جاتے ھیں ھم محبت کرنے لگتے ھیں


ھم بے جان چیزوں کو سمبھال کر رکھتے ھیں ان سے وابستہ یادیں ھمیں عزیز ھوتی ھیں ۔ ھم بے زبان جانوروں سے محبت کرنے لگتے ھیں میں سوچ رھی تھی ٹارگٹ کلینگ میں مرنے والے لاپتہ ھوجانے والے دھماکوں میں جان سے جانے والوں کے گھر والوں کے دل پہ کیا بیتتی ھوگی وہ لوگ جن کے ساتھ ماضی کی بہت سی یادیں ھوتی ھیں جذباتی لگاؤ اور تعلق ھوتا ھے ان کے حوالے سے مستقبل کے خواب دیکھے ھوتے ھیں وہ بے جان اور بے زبان نہیں ھوتے ان کی بہت سی باتیں ھماری یادوں میں بسی ھوتی ھیں ان کو لوگ کیسے بھلاتے ھوَں گے  -
ایک ھنستے کھیلتے انسان کی میت کو دیکھنا جو صحت مند تھا کوئ بزرگ ھو یا بہت بیمار ھو ایسے میں  انسان ذھنی طور پہ تیار ھوتا ھے مگر موت اور ابدی جدائ کا دکھ بہت عرصہ تک رھتا ھے  ھم مہینوں ان کی باتیِں یاد کرتے رھتے ھیں اور ایک انسان جو ھنستے کھیلتے گھر سے جاتا ھے لوٹ آنے کے لیے جب وہ نہیں آتا یا اس کی میت آتی ھے گھر والے کیسے اپنے دلوں کو سمبھالتے ھوں گے
میں ایک بات اکثر سوچتی ھوں کیا موت کے سوداگروں نے کبھی زندگی سے محبت کی ھو گی کیا انسانوں سے محبت کی ھو گی
شاید موت کے سوداگروں نے اپنے دل میں کبھی محبت کو محسوس نہیں کیا انھیں شاید کبھی کسی
سے لگاؤ نہیں ھوا اگر ھوا ھوتا تو وہ جان سکتے ایک انسان کے جانے سے کتنے لوگوں کے
 دل کی بستیاں قبرستان بن جاتی ھیں

Saturday, June 11, 2011

ھائے رے یہ خوش فہمیاں ---------------






ھم کتنے خوش فہم قوم ھیں ۔ ھماری خوش گمانیاں ختم کیوں‌نہیں ھوتیں ھم خود ختم ھو جاتے ھیں -
ایک پارٹی انتخابات جتتی ھے دور ِ حکومت میں بے ایمانی کرتی ھے دورِ حکومت ختم ھونے پہ دیار ِ غیر میں بنائے ھوئے محلوں میں چلے جاتے ھیں
کچھ عرصے کے بعد واپس آتے ھیں ھم بھول جاتے ھیں یا اپنی خوش فہمی کے ھاتھوں مار کھا جاتے ھیں کہ وطن سے دور رہ کر سدھر گئے ھوں گے وطن کی محبت جاگ گئ ھو گی اب جو وعدے کر رھے ھیں وہ پورے کریں گے مگر ھماری خوش فہمیاں خوش فہمیاں ھی رھتی ھیں


ایک انسان پہ مسٹر ٹن پرسینٹ کا لیبل لگتا ھے کئ الزامات لگائے جاتے ھیں ھم پھر اسے پھر اپنا حکمران مان لیتے ھیں دیارغیر میں ھم سے پوچھا جاتا ھے کیا پاکستان کی قیادت کرنے کے لیے اس سے بڑا انسان اور با کردار انسان پورے پاکستان میں نہیں تھا کیا جواب دیں اٹھارہ کڑوڑ لوگوں نے اپنا  مسیحا کیوں چنا وہی خوش گمانیاں شاید زندگی کے حوادث نے اور جیل کی چھترول نے بندے کا پتر بنا دیا ھو لوگ تو یہی کہتے ھیں حوالات میں بڑے بڑے سیدھے ھو جاتے ھیں مگر وی آئ پی سیلوں میں جہاں دنیا نعمتیں میسر ھوں وہاں بڑے بڑے لوگ ایشوریا کے ڈانس اور لتا کے گانے سن کر غم غلط کرتے ھیں وہ کیسے سدھر سکتے ھیں یہ کلیہ عام انسان پہ پورا اترتا ھے جیسے الٹا لٹکایا جاتا ھے اور ایسی مار ماری جاتی ھے کہ برسوں اس مار کا مزا نہیں بھولتا


ھر بجٹ سے پہلے وعدوں پہ اعتبار کرتے ھوئے گمان کرتے ھیں شاید اس بار عوام کو ریلیف ملے گا مگر وہ حکومت ھی کیا جو عوام کے جذبات کو ان کے مسائل کو سمجھے عوام کو ریلیف دے ۔۔۔۔ ریلیف نہیں ملتا صرف تکلیف ملتی ھے


گوجرہ کا واقعہ ھو یا سیالکوٹ کا ھم سمجھنے لگتے ھیں اب تو یہ واقعہ میڈیا کے سامنے آگیا سب حقیقت عوام سے سامنے کھل چکی ھے اب مجرم بھاگ نہیں سکے گا مگر وہ مجرم ھی کیا جو پاکستان میں سزا پا جائے سزا کے حق دار عوام ھیں چاہے ڈرون حملے ھوں یا خوش کش حملے بے موت مرنا عوام کے نصیب میں لکھی ھوتی ھے ھر واقعے کے بعد وی آئ پی لوگوں کی سیکورٹی بڑھا دی جاتی ھے حقیقی ملکی سرمایہ تو وہی ھیں عوام تو ایسا بکرا ھیں جسے قربان ھونا پڑتا ھے


خروٹ آباد کے واقعہ سامنے آیا کیا ھوا مجرم کہاں ھیں ۔ کیسے خبر --------وہ کہاں گئے کیا سزا ملی ملک میں ھیں یا فرار ھو گئے
مجرم تو مہران بیس سے بھی اپنی کاروائ کر کہ فرار ھو گئے تھے دھشت گرد بارود سے بھری گاڑی میں بارود بھر کر شہر میں آتا ھے اور کاروائ کرتا ھے اسے کچھ نہیں ھوتا ان کی رکھوالی کون کرتا ھے  اور بے بس عوام خیریت سے گھر نہیں پہنچتے ان کی لاشیں جاتیں ھیں - کبھی ملک دشمن عناصر کا نام سامنے آتا ھے کبھی دھشت گرد تنظیموں کا کبھی ڈرون حملے کا اور اپنے ملک کے رکھوالوں کا جو ملک کو لوٹنے والوں کو سلامی دے کر رخصت کرتے ھیں اور بے بس لوگوں پہ الزام لگا کر سرِ عام سزا بھی دے دیتے ھیں نہ عدالت نا صفائ کا کوئ موقعہ خود ھی گواہ خود ھی منصف ۔۔۔۔۔



کچھ فورم پہ لوگوں کو انصاف کی امید ھے نجانے یہ خوش فہمیاں جان کیوں نہیں چھوڑتیں ھم کیوں نہیں مان لیتے مرنا قسمت میں خود کش حملوں میں نہیں تو ڈرون حملے میں یا مہنگائ مار دے گی ۔ مگر ھم ھر بار خوش ھو جاتے ھیں چیف جسٹس صاحب نے از خود نوٹس لے لیا ھے کیا یہ کم ھے ھر بار ھم انصاف انصاف کا نعرہ لگاتے ھیں اس آس پہ شاید ھماری آوازیں ایوان کی دیاروں تک پہنچ جائیں مگر افسوس اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریوں کی آوازیں دیواروں سے ٹکراتی رھتی ھیں اثر نہیں دیکھاتیں
مجھے کوئ امید نہیں کہ انصاف ملے گا اب سب خوش فہمیاں دور ھو چکی ھیں آپ کس بات کی خوش فہمی ھے کس پہ اعتبار ھے ؟؟؟
پولیس پہ ؟؟؟؟
فوج پہ ؟؟؟
حکمرانوں پہ ؟؟؟
اپوزیشن پہ ؟؟
ایجینسیوں پہ ؟؟؟
دیارِ غیر میں بیٹھے محب ِ وطن جلا وطن سیاست دانوں پہ ؟؟

Monday, June 6, 2011

کیا مسلم عورت کمزور ھوتی ھے ؟





مغربی ممالک مسلم خواتین کے بارے میں خیال کیا جاتا ھے مسلم عورت پردے میں لپٹی ھوئ ڈری سہمی جس کی اپنی کوئ مرضی نہیں اپنی کوئ سوچ نہیں ھوتی جو شادی سے پہلے باپ اور بھائ کی مرضی سے زندگی بسر کرتی ھے شادی کے بعد شوھر کے اشاروں پہ چلتی ھے مسلم عورت جس کی اپنی کوئ زندگی نہیں ھوتی ھے
کیا مسلم عورت حقیقت میں کمزور ھوتی ھے ؟؟؟
جو عورت اپنی اقدار اپنی مذھبی قدروں کے سینے سے لگا کر رکھتی ھے
جو عورت بے حیائ کے ماحول میں اپنی شرم و حیا کو بچا کر رکھتی ھے
جو عورت زمانے کے رنگ میں نہیں رنگتی
جو عورت مادر پدر آزاد ماحول میں لوگوں کی باتوں سے بے پرواہ اپنے لباس اور پردے کا خیال رکھتی ھے
جو عورت اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھتی ھے
اپنی خواھشوں‌کو بے لگام نہیں ھونے دیتی
کیا وہ عورت کمزور ھو سکتی ھے ؟؟؟
کمزور ھوتی ھیں وہ عورتیں جو مشرق سے آتی ھیں لوگوں‌کی باتوں سے خوف ذدہ مغرب کے رنگ میں رنگ جاتی ھیں ان میں لوگوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ اور ھمت نہیں ھوتی
مگر مسلم عورت کبھی کمزور نہیں ھوتی جس کا ایمان مضبوط ھو اللہ پہ یقین ھو وہ عورت کبھی کمزور نہیں ھو سکتی

محبت اور زندگی







نوجوانوں کی پارٹی تھی جس کا موضوع بحث چل رھا تھا اے لیول کی پارٹی کیسے منائ جائے سب اپنی آئندہ زندگی کا پلان بنا رھے تھے وہ خاموشی سے بیٹھا سب کی باتیں سن رھا تھا اتنے میں اس کی گرل فرینڈ کیٹھرینہ ایک لڑکے کے ساتھ آئ وہ اسے چھوڑ چکی تھی بات کوئ خاص نہیں ھوئ تھی اور تین سال کا ساتھ چھوٹ گیا
سب دوست انکھوں ھی آنکھوں میں ایک دوسرے کے اشارے کر رھے تھے کچھ دوستی ختم ھونے کی وجہ جاننا  چاہ رھے تھے کیٹھرینہ اپنے دوست کے ساتھ جلد چلی گئ جانے کے بعد سب اب اس کا مذاق اڑا رھے تھے  اس لڑکے کی تعریف کر رھے اسے چھیڑ رھے تھے اسے سب اچھا نہیں لگ رھا تھا وہ چپ کر کے گھر آگیا
گھر آکر بھی کچھ اچھا نہیں لگ رھا تھا ماما پاپا دونوں سو رھے تھے وہ کسی سے بات کرنا چاہ رھا تھا آن لائن ھوا فیس بک پہ کافی دوست آن لائن تھے سب اسے چھیڑ رھے تھے مذاق بنا رھے تھے سب کے لیے دل لگی تھی مگر ھر بات اسے دل پہ لگ رھی تھی
 میری زندگی کا کیا مقصد ھے میری زندگی میں اب کچھ نہیں یہ اس کے آخری الفاظ تھے جو اس نے اپنے فیس بک اسٹیٹس پہ تحریر کیے
وہ گھر سے باھر آیا آوارہ گھومتا رھا گھومتے گھومتے ریلوے لائن تک آیا سامنے سے تیز رفتار ٹرین آرھی تھی وہ سامنے آگیا کچھ سیکینڈ کے بعد وہاں اس کے جسم کے درجنوں ٹکڑے بکھرے ھوئے تھے ھر طرف خون تھا


یہ سچا واقعہ ھے جو ھفتے کے روز یہاں پیش آیا
زندگی کیا ھے اس کا مقصد کیا ھے میں یہی سوچ رھی ھوں
کیا کسی ایک کی محبت ھی سب کچھ ھوتی ھے
کیا ماں باپ کا زندگی میں کردار صرف اتنا ھوتا ھے کہ وہ پال پوس کر بڑا کر دیں

ان کے کوئ ارمان نہیں ھوتے کوئ خواب نہیں ھوتے
پاکستان میں بھوک بیماری ھر موڑ پر کئ امتحان ھوتے ھیں انسان بہت کچھ کرنا چاھتا ھے وہ بہت کچھ کر بھی سکتا ھے مگر وہ بے بس ھوتا ھے آخر مایوسی کی حد یں ختم ھو تی ھیں اور وہ خود کشی کر لیتا ھے

یورپ میں محلوں میں رھنے والے دنیا کی ھر آسائش پانے والے جنھیں آنکھیں کھولتے دنیا کی ھر آسائیش میسر ھوتی ھے مگر انھیں زندگی میں دلچسپی نہیں ھوتی یہ پہلے واقعہ نہیں اس سال میں یہ تیسرا واقعہ
ھے جو ھمارے جاننے والوں میں ھمارے علاقے میں ھوا ھے زرا سی بات پہ دلبرداشتہ ھو کر زندگی کا خاتمہ کرلینے کا

Wednesday, June 1, 2011

فراغ دلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






پریس کانفرنس ھو رھی  تھی مختلف سوالات کیے جا رھے تھے اتنے میں ایک صحافی نے محترم صدر صاحب سے سوال کیا اللہ نے آپ کو اتنا نوازا ھے
اتنا کچھ دیا ھے آپ اللہ کے راہ میں کیا دیتے ھیں


محترم صدر صاحب کے چہرے پہ ازلی مسکراہٹ سجی ھوئ  تھی
انھوں نے مسکراتے ھوئے کہا

میرے پاس اللہ کا دیا اور بندوں سے لیا ھوا بہت کچھ ھے
اور جو کچھ بھی ھے وہ سب اللہ سائیں کا ھی ھے
میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں مجھے حیرت ھے آپ نے مجھ سے یہ سوال کیا
میں تو اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رھتا ھوں
میں تو صبح آنکھ کھولتا ھوں تو شہادت کی آرزو لیے ھوئے کھولتا ھوں
اللہ مجھے جو بھی دیتا ھے میں اس کی راہ میں دے دیتا ھوں

صحافی نے حیرت سے پوچھا
سر آپ نے آج تک کیا کیا اللہ کی راہ میں دیا ھے

دیکھو بابا صدر صاحب نے ایسے مسکراتے ھوئے اسے دیکھا جیسے ایک بزرگ نادان بچے کو دیکھتا ھے
میری جتنی بھی ایک دن کی کمائ ھوتی ھے وہ میں جھولی میں بھر کر آسمان کی طرف اچھال دیتا ھوں
اللہ سائیں نے جو اپنے پاس رکھنا ھوتا ھے وہ رکھ لیتا ھے باقی میری طرف پھینک دیتا ھے



فراغ دلی کی ایسی اعلیٰ مثال ملنا مشکل ھے حاتم تائ بھی پانی پانی ھو رھا ھوگا ایسی دریا دلی پہ


نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں صدر کا نام نہیں لکھا کیا پتا یہ کسی کمیٹی کے صدر کی کہانی ھے یا کسی کمیشن کے صدر کی آپ اپنی مرضی سے اپنی پسندیدہ شخصیت کا نام  فٹ کر سکتے ھیں یہ آپ کی مرضی پہ ھے دیکھتے ھیں کس کس کی سوچ ملتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, May 30, 2011

میں نے پاکستان دیکھا






ٹی وی پہ غلطی سے اگر پاکستانی چینل لگا دیں تو آواز آئے گی دھماکے اتنے لوگ جان بحق ٹرین پٹری سے اتر گئ ۔ بس کھائ میں گر گئ ۔ ٹارگٹ کیلنگ کا کتنے لوگ نشانہ بنے بھوک کی وجہ سے کس نے خود کشی کی مہنگائ کا حال رشوت اور بے ایمانی کا راج - خوبصورت چہرے جدید تراش خراش کے لباس میں ملبوس مسکراتے ھوئے چہرے مجال ھے کبھی ھنسی خوشی کی خبر سنائ ھے پہلے لوگ کہا کرتے تھے روتے چہرے روتی خبر لاتے ھیں مگر اب مسکراتے ھوئے چہرے بھی دل جلانے والی خبر سناتے ھیں

انھیں خبروں کے بیچ میں ایک اچھی یہ ملی کہ بھائ کی شادی طے پائ ھے منگنی چھ ماہ پہلے ھوگئ تھی امی ابو کے ساتھ چھٹ پٹ پاکستان کا پراگرام بنا - ایک دوست نے سنا تو اس نے کہا آج کل کے حالات میں پاکستان جانا کوئ عقلمندی کی بات نہیں اس نے ذھنی حالت پہ شک کیا
ایک اور دوست نے کانپتے ھوئے دعا دی خوشی کے موقعے پہ جا رھی ھو
خدا خیریت رکھے شاید  چشم ِ تصور میں ھمیں کسی دھماکے میں جام ِ شہادت نوش فرماتے دیکھ کر کانپی تھی


خیر انھیں سوچوں کے ساتھ ایسی کی خبروں کو سنتے ھوئے پاکستان کے ائر پورٹ پہ اترے ائر پورٹ پہ ھر انسان بے ایمان رشوت خور لگا میں ھر ایک کو ایسے دیکھ رھی تھی جیسے پولیس والے کسی غریب چور کو دیکھتے ھیں مگر خیر رھی ائر پورٹ سے نکلتے ھر گاڑی پہ را موساد بلیک واٹر ایجنسیوں کی گاڑی کا گمان ھرتا رھا ھر جیکٹ پہننے والے خود کش حملہ آور کا گمان ھوتا رھا سارے رستے ایسے چوکنے ھو کر بیٹھے رھے جیسے کسی نے حملہ کیا تو آنکھوں سے ھی بم کو ناکارہ بنا دیں گے
گھر پہنچ کر سکون کا سانس لیا
اگلے دن شاپنگ کرنے نکلے تو ابو نے کہا جلدی آجانا حالات بہت خراب ھیں
ابھی گھر سےگئے ایک گھنٹہ ھی ھوا تھا ابو کی کال آگئ گھر کب آنا ھے حالات کا کوئ اعتبار نہیں اور یہ فقرے واپسی تک بار بار سننے کو ملے
پہلے دن ڈرتے ھوئے گزرا پھر شیر بن گئے کئ حادثات کے بعد بھی زندگی رواں دواں  ھے تین بار دھماکے کی ذرد میں آنے والی مون مارکیٹ بھی آباد  ھے لبرٹی چوک پہ رش اتنا تھا لگا نہیں یہ وہ پاکستان ھے جس کے لوگ بھوک کی وجہ سے اپنے بچے بیچ رھے ھیں -
ایک ایسا ملک جس کی ایک بڑی آبادی کی تنخواہ چھ ھزار ھے اسی پاکستان میں ایک وقت کا کھانا چھ ھزار سے زیادہ کھاتے ھوئے دیکھا
ننگ ڈھرنگ لوگوں کے بیچ آٹھ دس ھزار کے ایک کرتا پہنے ھوئے لوگ بھی تھے مہنگائ سے پریشان لوگ بھی دیکھے اور شاپنگ سنٹرز کا نا ختم ھونے والا سلسلہ بھی دیکھا

پاکستان کے اور فوج کے خلاف نعرے لگانے والوں کے ساتھ واہگہ پہ پاکستان زندہ باد پاکستانی شیر جوان زندہ باد کے نعرے بھی سنے

ایک اور تبدیلی جو نوٹ کی وہ یہ تھی اب بھکاری کم نظر آئے آپ گاڑی سگنل پہ کھڑی ھے کھڑکی سے ایک دم مردانہ ٹائپ زنانہ ھاتھ سامنے آئے گا آپ کو شاد و آباد رکھنے کی دعا میں حیران ھو کر دیکھ رھی تھی یہ کیسے بھکاری ھیں مگر ایسے بھکاری آپ کو ھر جگہ نظر آئیں گے
ان میں بھی شاید ذاتیں  ھوتی ھیں عام ذات کے ھیجڑے چوک اور سگنلوں پہ نظر آئیں گے ان سے بڑی ذات کے ھیجڑے دفتروں اور بڑی بلڈنگز میں  نظر آئیں گے مرد کے بچے گرمی سردی میں محنت مزدوری کرتے خون پسینہ  بہاتے نظر آتے ھیں اور سب سے اعلیٰ ذات کے ھیجڑے تھری سوٹ پہنے ٹائ لگائے قافلوں کی شکل میں چارٹر طیاروں میں یورپ اور امریکہ میں بھیک مانگتے نظر آتے ھیں ایسا مجھے ھی محسوس ھوا ھے
یا آپ نے بھی ایسا دیکھا ھے ؟؟؟؟

Wednesday, May 18, 2011

ایک دفعہ کا ذکر ھے



ایک دفعہ کا زکر ھے ایک چھوٹی سی ریاست تھی جسے اللہ نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا تھا لوگ غریب اور محنت کش تھے روکھی سوکھی کھا کر خوش رھتے تھے جس حال میں بھی تھے اپنے حال مین مست تھے ریاست کا بادشاہ جو کہتا اس پہ آنکھیں بند کر یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے پھر خدا کا کرنا یہ ھوا بادشاہ فوت ھو گیا
اب مسلہ تھا ریاست کون چلائے گا پھر ان میں سے ایک طاقت ور آدمی اٹھا اس نے کہا وہ سب کی حفاظت کر سکتا ھے سب نے شکر کیا کوئ تو آیا ان کی حفاظت کرنے کے لیے — وہ جو کہتا وہ اپنی عادت کے مطابق یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے انھیں دو وقت کی روٹی مل رھی تھی دن ھفتوں میں بدلے ھفتے مہینوں میں اور پھر کئ سال گزر گئے پھر پتا چلا وہ محافظ سارا شاھی خزانہ لے کر بھاگ گیا ھے
مسلہ پھر کھڑا ھوا اب کون ریاست سمبھالے گا اب تک تو شاھی خاندان حکومت کرتا آیا ھے عوام اپنے آپ کو حکومت کے قابل نہیں سمجھتے تھے رعایا کو صرف دو وقت کی روٹی چاھیے ھوتی تھی سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رھے تھے پھر سب نے مل کر فیصلہ کیا جو بھی صبح سویرے ریاست کے دارلخلافہ میں داخل ھوگا اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا
سارے شہر کی آنکھیں شہر کے دروازے بھی لگی ھوئیں تھیں صبح دیکھا تو گدھوں کا غول شہر میں داخل ھو رھا ھے سب لوگ پریشان ھو گئے اب کیا کریں مگر وہ فیصلہ کر چکے تھے ابھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا
گدھے گھاس کھا کر اپنے حال میں مست رھتے وہ عوام کی زبان اور مسائل نہیں سمجھ سکتے تھے عوام ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے ریاست میں کافی گھاس تھی سب بندر بانٹ میں لگے رھتے کس کی کتنی گھاس ھے کون کتنی گھاس کھائے گا عوام کی روٹی کی کون فکر کرتے عوام کی حفاظت کون کرتا قانون کون بناتا کون حفاظت کرتا ریاست مین بد حالی پھیل رھی تھی عوام قانون خود بناتے تھے خود ھی فیصلہ کرتے تھے سر ِ عام سزائیں دی جانے لگی مگر حکمران اپنے حال میں مست تھے ایسے میں ریاست سے باھر کے گدھوں نے بھی ریاست میں‌دخل اندازی شروع کر دی
دوسری ریاست کے لوگ حیران تھے انھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران کیوں بنایا ھوا ھے پھر ریاست میں الیکشن ھوئے رعایا نے پھر گدھوں کو منتخب کیا دو وقت کی روٹی کو زندگی کا مقصد سمجھنے والے عوام کچھ سمجھتے نہیں تھے
پھر ساری دنیا میں مشہور ھو گیا عوام بھی گدھے ھیں اگر گدھے نہ ھوتے تو گدھوں کو کیسے منتخب کرتے ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد انھیں سمجھ جانا چاھئیے تھا گدھے گدھے ھیں انھیں ان کے مسائل کا کوئ ادراک نہیں وہ اپنے حکمران گدھوں سے دن رات دولتیاں کھاتے چیخ و پکار کرتے خود کشیاں کرتے اپنے بچوں کو مارتے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اللہ سے گلے کرتے اپنے مسائل کے لیے پھر ان کی طرف دیکھتے جواب میں دولتیاں کھاتے تھے پھر مگر اس قوم کو ساری دنیا نے گدھے مان لیا ان کے مسائل پہ کوئ غور نہیں کرتا تھا پھر ان کا کیا وھا اللہ جانے
ھو سکتا ھے جب اس ریاست کی گھاس ختم ھوگئ ھو تو گدھوں نے اس ریاست کو چھوڑ دیا ھو کیونکہ گدھوں کو گھاس سے مطلب ھو زمین سے محبت انھیں کہاں ھوتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سبق —– اس کہانی سے یہ سبق ملتا ھے گدھے کبھی انسان نہیں بنتے چاھے انھیں حکمران بنا دیا جائے
نمبر دو ۔۔۔۔ اگر انسان گدھے بن جائیں تو انھیں عقل دینا بہت مشکل ھوتا ھے انھیں پھر ھر جگہ سے دولتیاں ھی ملتی ھیں
نوٹ —— یہ صرف ایک کہانی ھے اگر حالات واقعات آپ کے اردگرد کے حالات سے ملتے ھوں تو یہ مماثلت اتفاقیہ ھوگی

اس میں برائ کیا ھے




گذشتہ دنوں اس موضوع پہ کافی لکھا گیا حجاج اکرام کو سہولیات نہیں دیں گئیں جو دینی چاھئیے حج جیسے مقدس فریضے میں بھی کرپشن کی گئ 
کسی نے مجھ سے  کہا کیا انھیں خدا کا خوف نہیں جو لوگ زکات صدقہ  
یتیموں کا حق تو کھاتے تھے اب حج جیسے  مقدس فریضہ میں بھی کرپشن کر رھے ھیں 

نجانے لوگ ھر بات کا منفی پہلو کیوں دیکھتے ھیں  کیا پتا ان کی نیت کیا تھی اللہ تو نیت کو دیکھتا ھے ھمیشہ اچھا سوچنا چاھئیے 

ھو سکتا ھے وہ دیکھنا چاہ رھے ھوں حق حلال کی خون پسینے کی کمائ کا ذائقہ کیسا ھوتا ھے 


ھو سکتا ھے انھوں نے یہ سوچا ھو اگر حجاج اکرام کو اچھی سہولیات دی گئیں آرام پہنچایا گیا تو وہ کہیں اللہ کے ذکر کو بھول کر سکون کی نیند سو جائیں 


تکلیف میں انسان اللہ کو زیادہ یاد کرتا ھے وہ چاھتے ھوں سب حجاج اکرام دنیا کی آسائشوں کو بھول کر اللہ کے زیادہ قریب ھو جائیں اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کو یاد کریں

 
پھر آج کل رشوت لینا اور دینا  کون سا گناہ ھے سب بہتی گنگا میں ھاتھ دھوتے ھیں اگر ان لوگوں نے بھی بہتی گنگا میں سے چلو بھر پانی پی لیا تو کیا ھوا 


پیسوں کی برسات ھو رھی ھوتی ھے مگر کچھ لوگ شرافت کی چھتری تان کے بیٹھے ھوتے ھیں یہ کیا ھوا برسات ھو اور انسان سوکھے کا سوکھا رھے بارش کا کیا اعتبار آج ھو رھی ھے کل نہ ھو 


مجھے اسی لیے غریب لوگ اچھے نہیں  لگتے سوچتے بہت ھیں جو کام کر رھے ھیں غلط ھے یا ٹھیک ھے غلط کام کرتے ھوئے کوئ دیکھ نہ لے 
کہیں پکڑے نہ جائیں 

دنیا والے کیا کہیں گے 

دنیا والوں کو کیا منہ دیکھائیں گے 

نجانے کتنی سزا ملے 

اگر دنیا کی سزا سے بچ گئے تو اللہ کی سزا سے کیسے بچیں گے 


مجھے اپنے ملک کے نامی گرامی لگ اسی لیے اچھے لگتے ھیں ان کو دیکھ کر خوشی ھوتی ھے جو چاھتے ھیں  بن داس ھو کر کر ڈالتے ھیں اچھا برا کیا سوچنا ۔ جب اللہ دے تو بندہ کیوں نہ لے 
میں نے اپنی دوست " م " سے کہا کچھ لوگوں کو دیکھ کر لگتا ھے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ھے 

تو وہ کہنے لگی جب سر کڑاھی میں ھے تو بندہ باہر کیوں ھے ایسے لوگوں کو تو دیکھ کر دل کرتا ھے ان کے پورے وجود کو کڑاھی میں ڈال کر پکوڑے کی طرح  فرائ کر دوں 

میں نے اس سے کہا انسان کا گوشت حرام ھے اتنا بڑا پکوڑا کون کھائے گا وہ بھی حرام 

خیر حج بھی ھو گیا حجاج اکرام کی واپسی کا عمل بھی شروع ھو گیا حکومت کی شرمندگی کچھ لمحوں کی ھوتی ھے کیونکہ اگلے لمحے پھر کوئ ایسا واقعہ ھو جاتا ھے جس پہ زیادہ شرمندہ ھونا پڑتا ھے اب تو ڈھائ سال ھو گئے شرمندہ ھوتے ھوئے اب تو سب شرمندگی پروف ھو گئے ھیِں اب اور بھی کام ھیں جو کرنے ھیں اب کیا بندہ بس شرمندہ ھی ھوتا رھے 


ویسے بھی انسان ایک ھی کام کرتے کرتے بور ھو جاتا ھے پہلے بہت سے واقعات کی مذمت کی جاتی تھی اب وہ تکلف بھی چھوڑ دیا ھے ھر واقعے کے بعد لوگوں کو پتا ھوتا تھا بھی مذمتی بیان آئے گا اب ایک ھی بیان انسان کتنی بار دے کبھی لگتا تھا یہ پرانی ریکارڈنگ چل رھی ھے پھر تھری پیس سوٹ دیکھ کر ٹائ دیکھ کر اندازہ ھوتا تھا نہیں آج کا ھی بیان ھے 

دیکھتے ھیں اگلی بار کیا تبدیلی آتی ھے وزارت بدلی جائے گی یا   سہولیات میں بہتری آئے گی 
دیکھ لیں موضوع حجاج اکرام کی سہولیات سے شروع ھوا تھا گھوم کر وہیں پہ ختم ھو رھا پس ثابت ھوا دنیا گول ھے 

دربار ِ دل






کہتے ھیں اللہ دل میں بستا ھے ۔ ھم کبھی اپنے دل میں  نہیں جھانکتے جس دل میں اللہ بستا ھے وہ دل کیسا ھے 

کل میں اپنے دل کے دربار میں گئ سارا وقت وہیں گزارہ سارا وقت  وہاں گھومتی رھی اپنے دل کے گلی کوچوں میں جھانک کر بہت افسوس ھوا 

اللہ کے ساتھ ھزار بت ایستادہ تھے چھوٹے بڑے دیو قامت بت بہت سے بت دیکھنے میں بہت خوبصورت لگ رھے تھے میں سوچنے لگی - کیا اللہ کے ساتھ یہ بت رہ سکتے ھیں ؟؟ جہاں اللہ ھو وہاں بتوں کا کیا کام 

دن میں پانچ نمازیں -- ایک گھنٹا اللہ کے ساتھ 
باقی تیئس گھنٹے ان بتوں کے ساتھ - میں نے سوچا ان سب بتوں کو توڑ دوں مگر کیسے ۔۔  دن کے باقی تیئس گھنٹے ان بتوں کے ساتھ بسر ھوتے ھیں ۔ ان بتوں کو توڑ دیا تو دن کیسے گزرے گا مجھے ان بتوں سے نفرت ھے 
مگر ان سب کی عادت ھو چکی ھے ان سب کو کیسے توڑ دوں 


کبھی اپنے دل کی نگری سے گزر ھوا ھے آپ کا ۔۔۔
کہیں حسد کی آگ جل رھی ھے
 کہیں نفرتوں کی دیواریں ھیں 
کہیں خود غرضی
 تو کہیں خود پرستی ھے 
کہیں اپنی ذات برادری کا غرور 
کہیں اپنے عہدے اور مال و دولت کا مان 

اپنی تعلیم اپنی خوبصورتی کا احساس 

چھوٹے بڑے ھزار بت تکبر کے 
ان سب کے درمیان کہیں لکھا ھوا اللہ کا نام 


دل کے دربار کا شہنشاہ کون ھے 
دل کے مندر میں پوجا کس کو جاتا ھے 
دل کی نگری میں حکمرانی کس کی ھے 
کل میں اپنے دل کی نگری میں گھومتے ھوئے روتی  رھی آنسو بہاتی رھی 
مگر یہ بت کچی مٹی کے تو بنے ھوئے نہیں تھے جو چند انسوؤں سے بہہ جاتے ۔ وہ تو ویسے ھی تھے میرے دل کی نگری ان سے آباد تھی ۔ ان کو کیسے اٹھا کر باھر پھینک دوں - آگ لگا دوں - اپنے دل کی نگری کیسے خود برباد کر دوں -


کیا آپ نے کبھی اپنے دل میں بسے بتوں کو توڑا ھے ؟؟
یا آپ کے دل میں کوئ بت نہیں ھے ؟؟ 
ایک عام انسان کا دل مندر کی طرح ھوتا ھے بتوں سے بھرا ھوا ۔
ھر مسلمان کا دل مسجد نہیں ھوتا - 

مسجد میں تو سب برابر ھوتے ھیں وہاں دولت کی نمائش نہیں ھوتی 

ذات برادری کو نہیں دیکھا جاتا 

وہاں تو اللہ کے حضور نگاھیں جھکی ھوتی ھے صورت کو نہیں پرکھا جاتا 

وہاں نفرتوں کی باتیں نہیں ھوتی 

میں نے اپنے دل کے دربار میں جانے کے بعد جانا ۔ میرا دل ایک مندر ھے - وہ مسجد کب تھا - یا میں نے اسے سنوارنے کی کوشش  بھی کب کی تھی 

------------------------------------------------- 

لازوال سستی کا علاج




ھو سکلتا ھے آپ عنوان دیکھ کر سوچ رھے ھوں میں نے پیری فقیری کا کام شروع کر دیا ھے میں کوئ کوئ چلہ کاٹنے کا مشورہ دوں گی کوئ جادو ٹونہ جس کے اثر سے جیسا کہ  دعوے کیے جاتے ھیں پندرہ  دن میں محبوب آپ کے قدموں میں پتھر دل محبوب موم بن جائے ٹائپ کا کوئ ٹوٹکہ جس سے سستی دور ھو جائے گی تو ایسا با لکل نہیں 

اب شاید آپ سوچ رھے ھوں میں نے حکمت شروع کر دی ھے حکیم لقمان کا کوئ نسخہ میرے ھاتھ لگ گیا ھے تو یہ بھی نہیں 
یا کسی پیر بابا کی کرامت سے کوئ ایسا تعویذ مل گیا ھے جس کے باندھنے سے سست اور کاھل انسان سپر مین بن سکتا ھے تو یہ بھی غلط ھے 


کافی عرصے سے سستی طاری تھی بلاگ لکھنے کو بھی دل نہیں کر کررھا تھا دل کرتا تھا بس بیٹھے رھیں تصورِ جاناں لیے ھوئے ۔۔۔۔۔ مگر افسوس کوئ جاناں بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ عجیب سا عالم رھا کیا کچھ بھی نہیں بس فرصت ھی فرصت تھی مگر مصروف 
بہت رھے ۔۔۔۔۔ واقعی جس نے بھی کہا ھے ٹھیک کہا ھے جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ھیں 


کچھ لوگوں نے خاموشی سے سمجھا شاید ھم دنیا فانی سے کوچ کر گئے کسی نے سکون کا سانس لیا کچھ نے فاتحہ پڑھ دی کچھ نے حیرت کا اظہار کیا کہ دنیا سے اچھے لوگ جلد گزر جاتے ھیں ھم کس خوشی میں دنیا سے چلے گئے تصدیق کے لیے فون کیا ھم نے ھی اٹھایا تو انھوں نے خوشی سے کہا وہی تو میں حیران تھی اچھے لوگ دنیا سے جاتے ھیں مجھے یقین تھا تم خیریت سے ھو گی ۔۔۔۔۔ اب ایسے میں کوئ کیا کہہ سکتا ھے 


دنیا کے لوگ بھی عجیب ھیں کچھ دوست نما دشمن ھوتے ھیں کچھ دشمن نما دوست ھوتے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔ خیر دنیا کے رنگ نرالے 
جتنے چہرے اتنے رنگ ۔۔۔۔۔ اور کچھ بد رنگ ۔۔ اور کچھ رنگ میں بھنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بات جہاں سے شروع ھوئ تھی وہ وہی پہ رک گئ سستی کا کیا علاج ھے ۔۔۔۔ وھم کا تو سنا تھا وھم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا ۔۔۔ مگر ھر حکیم ۔۔ حکیم لقمان نہیں ھوتا اس لیے وھم کا علاج بھی ممکن ھے یہ میرا وھم ھے ۔۔۔۔۔۔  مگر سستی کا علاج کس کے پاس ھے 
وہ بھی لازوال سستی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سستی کے ھاتھوں بہت تنگ ھیں اگر سست نہ ھوتے تو شاید کچھ ھوتے -------
میں ایک رائٹر کی بائیو گرافی پڑھ رھی تھی اتنی عمر نہیں جتنی کتب وہ تحریر کر چکے ھیں اگر پیدا ھوتے ھی کتاب لکھی ھو تو بھی عمر کے سال سے کتب کی تعداد  زیادہ بنتی ھیں 
نجانے کیسے لوگ ھیں کچھ لوگوں کو دیکھ کر سوچتی ھوں یہ ایک دن میں اتنے کام کیسے کر لیتے ھیں دن تو ان کا بھی چوبیس گھنٹے کا ھوتا ھے ۔۔ کھانا پینا ۔۔ ملنا ملانا ۔۔ سونا جاگنا ۔۔ فون ٹی وی کمپیوٹر ۔۔۔۔ ھزار کام ۔۔۔۔ لوگ کیسے تقسیم کرتے ھیں اپنے وقت کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کے لیے شاید وقت ٹھہر جاتا ھے  یا وہ وقت کی رفتار سے تیز بھاگتے ھیں ۔۔۔۔ کچھ لوگ وقت سے بہت پیچھے رہ جاتے ھیں اور وقت انھیں چھوڑ کر بہت آگے نکل  جاتا ھے ۔۔ اور پھر وقت کبھی ھاتھ نہیں آتا ۔۔۔۔۔

آج کے مومن






میں اکثر سوچتی تھی مومن کی پہنچان کیا ھوتی ھے - مسلمان تو بہت ھیں مگر مومن ھر ایک نہیں ھوتا 
اشفاق احمد کے پروگرام زاویہ میں سنا مسلمان اللہ کو مانتا ھے اور مومن اللہ کی مانتا ھے 


آج کل مجھے مومن بہت نظر آرھے ھیں پو جوش ناموسِ رسالت پہ مر مٹنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناموسِ رسالت کے لیے جان دینے والے اور جان لینے والے --------


ایک محترم ھیں چھ سال سے یہاں ھیں پاکستانی مسلمان ھیں یہاں تنہائ سے تنگ آکر ایک لڑکی کے ساتھ رہ رھے ھیں اپنے گھر والوں سے دور ھیں آخر دکھ سکھ کے لیے کوئ تو ھونا چاھیے اس لیے اگر ایک لڑکی کے ساتھ بنا شادی کے رہ رھے ھیں تو آخر کیا خرابی ھے ۔ آج  کل بہت جوش میں ھیں ان کا بس چلے تو آسیہ کو اپنے ھاتھوں سے مار آئیں ممتاز قادری کے ان ھاتھوں کو چومیں جن سے ایک گستاخِ رسول کو جہنم رسید کیا بہت جوش میں کہتے ھیں گستاخِ رسول کی یہی سزا ھے ۔ میں سوچ رھی ھوں گستاخِ رسول کی یہ سزا ھے تو کسی زانی کی اسلام میں کیا سزا ھے -------- یہ ایک فضول بات ھے میں ایسا کیوں سوچ رھی ھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک اور موصوف ھیں پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر سے کافی بڑی ایک عورت سے """ کاغذی شادی کر چکے ھیں جو ان کے ساتھ رھتی ھے ------ موصوف کے گھر والے اپنے بیٹے کی مجبوری کو جانتے ھیں‌ وہ جانتے ھیں ان کے بیٹے نے یہ قدم خوشی سے نہیں اٹھایا وہ بہت مجبور تھا ---- اس مجبور اقدام کے نتیجے میں ایک بچہ بھی ھو چکا ھے --- آج کل حالات کے بارے میں ان کا خیال ھے اگر سختی نہ کی گئ اقلیتوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ ھمارے سامنے ھمارے مذھبی تعلیم کو ھمارے مذھب کو برا کہیں گے ان کو اتنی آزادی اتنی چھوٹ نہیں دی جا سکتی -------- کسی غیر مسلم کو چھوٹ اور آزادی نہیں دی جا سکتی ---- مگر ایک مسلمان کو آزادی ھے قیامت تک کی چھوٹ ھے وہ اپنے مذھب کی تعلیم کو بدنام کرے 



ایک ھیں ھمارے وزیر موصوف وہ اجلاس میں سورت اخلاص کی تلاوت کرتے ھیں کیونکہ اجلاس میں کوئ اور ان سے زیادہ پڑھا لکھا نہیں ھے اس لیے تلاوت کے لیے ان کا نام پکارا جاتا ھے پہلی بار تلاوت شروع کرتے ھیں غلط پڑھتے ھیں توجہ دلائ جاتی ھے دوبارہ پڑھتے ھیں پھر غلط پڑھتے ھیں تیسری بار غلط پڑھنے پہ صفائ پیش کرتے ھیں جو لکھا ھے وہی پڑھ رھا ھوں محترم کو زبانی سورت اخلاص یاد نہیں اور ان محترم کا نام بھی سامنے نہیں آیا جس مردِ مومن نے انھیں سورت لکھ کر دی تھی دو دن کے بعد ان کا بیان آتا ھے ------ گستاخِ رسول کو وہ گولی سے اڑا دیں گے ----------


مومن کی پہچان کیا ھے ؟؟؟؟؟؟؟
مومن وہ ھے جو اسلام کی تعلیم پہ عمل کرے یا نہ کرے وہ اس کا مسلہ ھے اگر کوئ اسلام کے بارے میں کچھ کہے اعتراض کرے اختلاف کرے تو مرنے مارنے کے لیے تیار ھو جائے ۔ ھم یہ بحث تو کر سکتے ھیں کوئ حدیث صحیح  ھے یا نہیں کس زمانہ میں اکھٹی کی گئ راوی کون ھے ۔۔۔
مگر توھین ِ رسالت کے قانون کے بارے میں ایک لفظ کہنے پہ بھی آپ کا ایمان مشکوک ھو سکتا ھے  ------------

Tuesday, May 17, 2011

یہ دنیا بڑی ٹھگ ھے


یہ دنیا بڑی ٹھگ ھے 


مبارک ھو آپ کی دو میلین کی لاٹری نکلی ھے ۔ 
مجھے نہیں چاھئیے 
اور نیند میں فون بند کر دیا 
پھر نیند میں یہ الفاظ دھرائے ۔ 
اور آنکھیں پوری کھل گئیں ۔ کیا دو میلین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر وقت گزر چکا تھا ۔ نیند کے سامنے تو کچھ بھی اچھا  نہیں لگتا 
سارا دن دماغ متضاد سوچوں‌کی آماجگاہ بنا رھا ۔ جب کوئ لاٹری بھری نہیں تو لاٹری نکلے گی کیسے 
پھر سوچتی رھی کیا پتا اللہ چھپڑ پھاڑ کر دینا چاہ رھا ھو ۔ 
مگر اللہ چھپڑ پھاڑ کر انھیں ھی دیتا ھے جن کے چھپڑ بہت مضبوط ھوتے ھیں غریبوں کو اس لیے بھی نہیں دیتا پتا ھوتا ھے چھت اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی 
اسی رات کو ٹی وی آن کیا ایک پروگرام لگا ھوا تھا ۔ ایک عورت کینڈل لائٹ ڈنر کا اھتمام کرتی ھے شوھر کام سے آتا ھے  
وہ پوچھتا ھے آج کیا کوئ سپیشل دن ھے نا تمہاری سالگرہ ھے نا میری نا ھماری شادی کی سالگرہ ھے 
ھم کھانا کھا لو پھر بتاتی ھوں 
کھانے کے بعد بیوی ایک خط دیکھاتی ھے جس میں مرد کے بتایا جاتا ھے اس کے چاچا جو اس کی والدہ کے کزن تھے انھوں نے اپنے خاندان سے تعلق توڑ دیا تھا اب مرنے کے قریب ھیں اپنی ساری جائداد ان کے نام کر دی ھے ایک فون نمبر دیا تھا جس پہ فون کر کے وہ مذید معلومات لے سکتے ھیں 
انھوں نے وھاں فون کیا تو ھدایت ملی تین ھزار یورو بھیج دیں کاغذٰ کاروائ اور رقم کی ٹرانسفر کے لیے اتنی رقم چاھئیے تین ھفتوں تک ڈھائ میلین یورو انھیں مل جائیں گے 
ڈھائ ھفتے سے ڈھائ ماہ گزر گئے مگر ان کا کوئ پتا نہیں چلا 
ایسے بہت سے واقعات یہاں کچھ عرصہ پہلے ھوئے تھے 

ایک دن فون آیا مبارک ھو آپ کی کار انشورنس کی فرم نے قرااندازی کی ھے جس میں آپ کی کار کا نمبر  نکلا ھے آپ ڈیڑھ ھزار یورو کا پٹرول بھر سکتی ھیں مذید معلومات کے لیے اس نمبر پہ فون کریں 
میں نیند میں تھی نمبر نوٹ نہیں کیا 
یہ بھی فراڈ ھے لوگ نمبر پہ فون کرتے ھیں پانچ منٹ انتظار کروائیں گے پھر مختلف سوالات پوچھیں گے کوشش کریں ھے زیادہ دیر بات ھو سکے - بیس یورو فیکس فون کالز کے ھوتے ھیں ملک بھر میں جتنی چاھو بات کرو ۔ اس نمبر پہ ایک منٹ کے دو یورو ھیں جو ان کے اکاؤئنٹ میں جاتے ھیں بہت  سے لوگوں کو چالیس سے ساٹھ یورو تک کا بل آیا اس نمبر پہ کال کرنے سے ------
انٹر نیٹ سبھی استعمال کرتے ھیں ڈاؤن لوڈ بھی کرتے ھیں بچے گیمز اور اکثریت گانے اور فلمیں - بہت سے لوگوں کو خط آئے 
جس میں کہا گیا تھا انھوں نے غیر قانونی ڈاؤن لوڈ کیا ھے اس لیے انھیں چھ سو یورو جرمانہ کیا جا رھا ھے اگر 30 دن کے اندر انھوں نے یہ رقم جمع نہ کروائ تو کیس عدالت میں جائے گا 
وکیل اور عدالت کے خرچے کا ساتھ ساتھ چھ ھزار یورو جرمانہ ھوگا ۔ مذید تحقیق کی جائے گی اگر کچھ اور بھی ڈاؤن لوڈ کیا ھوگا اس کا جرمانہ الگ ھوگا 
لوگ عدالت اور کیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاھتے - دل میں چور ھوتا ھے اس لیے چھ سو دے کر جان چھڑالیتے ھیں -
جب اس طرح کے خط ان اڈھیر عمر لوگوں کو بھی آئے جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ۔ اگر کرتے بھی ھیں تو صرف اخبار پڑھنے کے لیے تب یہ کیس میڈیا کے سامنے آیا ۔ یہ بھی فراڈ ھے ۔
پہلے چوریاں  ھوتی تھیں ۔ اب لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد ھو رھے ھیں - نئے نئے واقعات سامنے آتے ھیں ۔ ھر بار طریقہ نیا ھوتا ھے ۔ کیا کیا جائے یہ دنیا بڑی ٹھگ ھے 

منظر نامہ پہ ایک انٹرویو


منظر نامہ کے قارئین کو خوش آمدید۔
سلسلہ شناسائی میں آج ہم ایک بلاگر مہمان کے ساتھ حاضر ہیں۔ آپ اردو بلاگنگ میں بہت پرانی بھی نہیں اور بہت نئی بھی نہیں۔ باقاعدہ اردو بلاگنگ کے آغاز سے پہلے آپ القمر پر بھی لکھا کرتی تھیں۔ دسمبر 2008 سے آپ نے اردو بلاگنگ کا آغاز کیا۔ اور ماشااللہ باقاعدگی سے بہترین لکھ رہی ہیں۔ سعدیہ جو سوچتی ہیں، جو محسوس کرتی ہیں، وہ اپنے بلاگ پر لکھتی ہیں اور ہم سب کے ساتھ شئیر کرتی ہیں۔ آج ہم ان سے اردو بلاگنگ اور کچھ ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے. تو آئیے ۔۔سعدیہ سحر سے بات چیت کا آغاز کرتے ہیں۔
خوش آمدید سعدیہ،
شکریہ ماوراء
- سعدیہ، سب سے پہلے ہم آپ کے بارے کچھ جاننا چاہیں گے۔ آپ کا خاندانی پس منظر، تعلیم، پیشہ یا آپ کیا کرتی ہیں؟
@ میرا تعلق زمیندار فیملی سے ھے ابو وکیل ہیں امی نے ٹیچنگ کا کورس کیا ہے مگر جاب نہیں کی ۔۔۔ بچپن سے میری خواہش تھی میں وکیل بنوں مگر ابو کا خیال تھا لڑکیوں کے لیے وکالت ایک مشکل پیشہ ھے اگر جاب کرنی پڑے تو بنک کی جاب بہتر ھے اس لیے میں نے اکنامکس پڑھی اور جب لکھنا شروع کیا تو ہر تِحریر میں حساب کتاب پرسنٹ ایج بہت ہوتا تھا لوگوں کے کہنے پہ چھوڑ دیا
- آپ کی جائے پیدائش اور حالیہ مقام کون سا ہے؟
@ میں لاہور میں پیدا ہوئی پلی بڑھی آج کل جرمنی میں ہوتی ہوں.
- بلاگ کب لکھنا شروع کیا اور بلاگ بناتے ہوئے آپ نے کیا سوچا تھا کہ آپ کو بلاگنگ کیوں کرنی چاہیے یا بلاگ کے آغاز کا بنیادی مقصد کیا تھا؟
@ بلاگ پچھلے سال دسمبر میں بنایا تھا مگر باقاعدہ لکھنے کا آغاز جنوری سے کیا – بلاگ اپنے دل کی بات بلکہ دل کی بھڑاس نکالنے کا بہترین زریعہ ھے اور کوئی خاص مقصد نہیں تھا.
- اس بلاگ سے پہلے آپ القمر پر بھی بلاگنگ کیا کرتی تھیں۔ وہ تجربہ کیسا رہا ، کچھ اس بارے میں بتائیں؟
@القمر پر لکھنے کا تجربہ ٹھیک رہا تعریف بھی بہت ہوئی تنقید بھی ہوئی.
- لکھنے کا شوق کب سے ہے؟
@بچپن کہانیاں لکھنے کا شوق تھا لکھ کر اپنی بہن یا اپنی دوستوں کو سنا دیتی تھی کبھی کسی رسالے میں نہیں بھیجی پہلی بار ساتویں کلاس میں اخبارِ جہاں ایک تحریر بھیجی جو اس ماہ کی بہترین تحریر قرار پائی اس کے بعد ڈائری باقاعدگی سے لکھتی رہی، کبھی کبھی بچوں کے رسالوں میں بھیجتی تھی کچھ کہانیاں لکھی ہیں ایک کہانی “کھلے آسمان تلے” جس کی تیرہ اقساط تھی ایک میگزین میں چھپی سیاست پہ دل غصے سے پھٹنے لگتا ہے تو لکھتی ہوں.
- آپ بلاگ پر کن کن موضوعات پر لکھتی ہیں ؟
@ کوئ مخصوص موضوع نہیں جو بات دل پہ لگ جائے اسی پہ لکھتی ہوں.
- یہ بتائیے کہ بلاگنگ کے بارے میں پہلی بار آپ کو کب اور کیسے پتا چلا تھا؟
@پاک نیٹ پہ لوگوں نے بلاگ اور ورڈ پریس کے بارے میں کافی کچھ لکھا وہی سے دیکھ کر بلاگ بنایا.
- بلاگنگ کے آغاز میں کن کن مشکلات کا سامنا رہا؟
@کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی بلاگ بنانے لگی تو حیرت انگیز طور پر فوراً بن گیا اس کی سیٹنگ کی سمجھ نہیں آرہی تھی ایک دن سیٹنگ کرتے کرتے اردو کی بورڈ غائب ہو گیا کافی مشکل سے وہ ٹھیک ہوا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کبھی بلاگ چھیڑا ہی نہیں.
- کیا آپ سمجھتی ہیں کہ بلاگنگ سے آپ کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟ یا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟
@ فائدے سےکیا مراد ہے ؟؟؟ عزت دولت شہرت ؟؟؟؟ لکھنے سے دل کو سکون ملتا ھے اسی لیے لکھتی ہوں – اور لکھنے سے جو دل کو سکون ملتا ھے ہر لکھنے والا جانتا ہے.
- اگر آپ کو اردو کے ساتھ تعلق بیان کرنے کو کہا جائے ، تو اس کو کیسے بیان کریں گی۔
@ اردو ہماری مادری زبان ھے اور اردو سے ہمارا وہی تعلق ھے جو ایک ماں کے ساتھ ہوتا ھے اس پہ ایک بلاگ لکھا تھا — میں بولتی سوچتی سمجھتی غصہ پیار محبت اردو میں ہی کرتی ہوں بلکہ سپنے بھی اردو میں ہی دیکھتی ہوں.
- آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اردو کو وہ مقام ملا ہے، جس کی وہ مستحق تھی؟
@ کیا پاکستان میں اردو کو کوئی مقام بھی حاصل ہے ؟؟؟؟ میرے علم میں یہ نہیں ہے.
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ھے جب سے پاکستان بنا ہے اردو کے ساتھ ستیلے بچے کا سا سلوک ہوتا آرہا ہے. دفتری کام انگلش میں ہوتے ہیں ہمارے صدر وزیرِ اعظم اپنی قومی زبان پہ غلط انگلش کو ترجیح دیتے ہیں انگلش میں خطاب کرتے ہیں ہمارا بجٹ حلف برداری کی تقریب انگلش میں ہوتی ہے وہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ستر فیصد سے زائد لوگ انگلش نہیں سمجھتے پاکستان میں انگلش کو ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ھے یہی وجہ ہے کہ ایک عام انسان بھی اگر اسے ایک اچھا اردو اسکول میسر ہو اس کی نسبت وہ ایک عام درجے کے انگلش اسکول میں دوگنی فیسوں کے ساتھ اپنے بچوں کو پڑھانا زیادہ پسند کرتا ہے اردو کو ایک رابطہ زبان بنانے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی اندونِ سندھ بلوچستان اور سرحد میں بہت سےلوگ اردو نہیں سمجھتے جب زبان ایک نہیں اپنے مسائل ایک زبان میں بیان نہیں کر سکتے تو دلوں کے فاصلے کیسے کم ہوں گے جب بھی اس بارے میں سوچوبہت دکھ ہوتا ہے.
- آنے والے دس سالوں میں اپنے آپ کو اور اردو بلاگنگ کو کہاں دیکھتی ہیں؟
@ آنے والے دس منٹوں کا کچھ نہیں کہہ سکتے ہاں جہاں تک بلاگنگ کی بات ھے جتنی تیزی سے انٹر نیٹ عام ہورہا ہے صرف ایک کلک سے دنیا بھر کی خبریں آپ کے سامنے ہوتی ہیں اور ایک عام انسان کا نقطہ نظر سمجھنےکے لیے بلاگنگ بہترین زریعہ ہے اردو بلاگرز کی اکثریت عام لوگوں پہ مشتمل ھے پروفیشنل لوگ نہیں ہیں عام لوگ جن کے وسائل اور مسائل عام ہیں جو عام لوگوں میں رہتے ہیں جینے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں غلط اور صحیح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں یورپ میں بلاگرز کا جو مقام ہے وہ اردو لکھنے والوں کو حاصل نہیں مگر آنے والے وقت میں مثبت تبدیلی آئے گی.
- بلاگنگ کے علاوہ دیگر کیا مصروفیات ہیں؟
@کچھ اور نہیں کرتی جاب کی تلاش میں ہوں معذور بچوں کا ایک اسکول ہمارے قریب کھلا ہے مگر وہاں جگہ نہیں ملی میں زندگی کے اس رنگ کو دیکھنا چاہتی ہوں.
- کسی بھی سطح پر اردو کی خدمت انجام دینے والوں اور اردو بلاگرز کے لیے کوئی پیغام؟
@میرے خیال میں آج کل انٹرنیٹ کے دور میں سب سے بڑی اردو کی خدمت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے اردو کا کی بورڈ شروع کیا یونی کوڈ میں اور لکھنے کا سلسلہ شروع کیا رومن اردو لکھتے لکھتے لوگ اردو کو بھولنے لگے تھے اور وہ لوگ نایاب کتابوں کو منظرِ عام پہ لا رہے ہیں اور وہ استاد جو خلوص دل سے سہولتیں نا ہونے کے باوجود بچوں کو پڑھا رہے ہیں قابلِ ستائش ہیں بلاگرز سے یہی کہنا ہے یہ نا دیکھیں کتنے لوگ پڑھتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں اپنے ضمیر کی آواز سنیں ضرور لکھیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں.
- آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے ،کوئی ایسی خواہش جس کی تکمیل چاہتی ہوں؟
@ ابھی زندگی کو سمجھ رہی ہوں مقصد نہیں جانتی کیا ہے خواہش نہیں کئی خواہشات ہیں.
کچھ سوال ذرا ہٹ کے۔۔۔
پسندیدہ:
1۔ آپ کی پسندیدہ کتاب؟ یا کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں ؟
@ بچپن میں ٹارزن کے کارنامے عمروعیار کی چالاکیاں اشفاق احمد کی کہانیاں پڑھتے ھوئے گزرا ڈائجسٹوں نے متاثر نہیں کیا ابو کو ابن انشاء پسند تھا ان کی کتابیں پڑھیں کرنل محمد خان شفق الرحمن صدیق سالک یوسفی کو پڑھا اور یونس بٹ کی کتابیں پچھلے دو تین سال میں پڑھیں ایک بار ایک دوست کے گھر ایک ڈائجسٹ کی ورق گردانی کرتے ھوئے عمیرہ احمد کا ناول پیر کامل پڑھنے کا اتفاق ھوا اس ناول نے ہر ماہ ڈائجسٹ خریدنے پہ مجبور کیا مجھے پیار محبت کی انڈین مویز ٹائپ کی کہانیاں پسند نہیں میں خاموش محبت کی قائل ھوں جس میں اظہار نہیں ہوتا انسان دوسرے کے ہر احساس کا خیال رکھتا ھے یہ بات فرحت اشتیاق کا ناولز میں نظر آئی عمیرہ احمد اور فرحت اشتیاق میری فیوریٹ ہیں.
2۔کیا آپ کوشعر و شاعری سے لگاؤ ہے؟ اگر ہے، تو آپ کے پسندیدہ شاعر اور پسندیدہ شعر کون سا ہے؟
@شاعری اپنے جذبات کے اظہار بہترین صورت ہے چند الفاظ میں اپنے دل کی بات کہنا ۔۔۔ میں نےغالب کو پڑھا کافی مشکل ہے فیض کی شاعری اچھی لگی اس کے علاوہ اعتبار ساجد محسن نقوی پروین شاکر کو پڑھا آزاد شاعری میں امجد اسلام امجد ان کی کئ نظموں کو پڑھ کر لگتا ھے الفاظ بہتے ہیں احمد فراز میرے فیوریٹ ہیں ان کی شاعری میں جو تمثیلیں ہیں وہ زبردست ہیں ان کا ایک شعر پڑھا تھا پھر ایک بار پڑھا بار بار پڑھا اور ہمیشہ سے پسندیدہ ہے.
ہم تو محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز
ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا
3۔ کہتے ہیں کہ رنگوں کے انتخاب سے کسی حد تک انسان کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، تو ہم آپ کے پسندیدہ رنگ کے بارے میں بھی جاننا چاہیں گے؟
@مجھے سفید اور آسمانی رنگ پسند ہے اس کے علاوہ ریڈ اور گرین ۔۔۔۔۔۔ اب شخصیت کا اندازہ لگا کر مجھے بھی بتائیں.
4۔ کونسا کھانا آپ بہت شوق سے کھاتی ہیں؟
@مجھے اپنی امی کے ہاتھ کی بنی ہوئی کڑھی بہت پسند ہے اس کے علاوہ بریانی بلکہ چاول سے بنی کوئی بھی ڈش چکن تکہ سیخ کباب پوری لسٹ آرہی ہے ذہن میں ساتھ منہ میں پانی بھی.
5۔ آپ کا پسندیدہ موسم کون سا ہے؟
مجھے ہر موسم اچھا لگتا ھے بہار خزاں سردی گرمی اور گرمی کی بارش خاص طور پہ جب ٹیریس کی چھت پہ بارش پر بارش برستی ہے اور شیشے پہ گرنے سے جو چھم چھم کی آواز اتی ہے وہ بہت اچھی لگتی ھے آدھی رات کہ بھی جب بارش ہوتی ہے میں ٹیریس پہ جا کر بیٹھ جاتی ہوں.
غلط/درست:
1۔ مجھے بلاگنگ کی عادت ہو گئی ہے؟
@جی کافی حد تک
2۔ مجھے اکثر اپنے کئے ہوئے پر افسوس ہوتا ہے؟
@اگر کوئی غلطی ہو جائے تو افسوس ہوتا ہے.
3۔ مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے؟
@درست
4۔ میں ایک اچھی دوست ہوں؟
@اگر کسی کو اپنا دوست مان لوں پھر ہر چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھتی ہوں
5۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے؟
طوفانی
اگر آپ سمجھتی ہیں کہ ہمیں کچھ پوچھنا چاہیے تھا، لیکن ہم نے پوچھا نہیں اور آپ کچھ کہنا چاہتی ہوں تو آپ کہہ سکتی ہیں۔
@آپ نے سب کچھ پوچھ لیا میں نےبھی سب کچھ بتا دیا کسی نے کچھ اور پوچھنا ھو تو پوچھ سکتا ہے.
سعدیہ، اپنا قیمتی وقت نکال کر منظر نامہ کے لیے جواب دینے کا بہت بہت شکریہ۔
شکریہ مارواء میں نےبہت سے لوگوں سے انٹر ویو لینے کا سوچا تھا مگر کبھی انٹرویو دینے کا نہیں سوچا تھا.انٹرویو دیتے ہوئے میرے چہرے پہ ویسی ہی مسکراہٹ تھی جیسی زرداری کے چہرے پہ ہوتی ہے.کوشش کی ہے جیسے سوچتی ہوں یا جیسی ہوں ویسے ہی جواب دوں-
منظر نامہ کی ٹیم کا شکریہ اور سب پڑھنے والوں کا بھی.