Monday, December 21, 2009

میرا آئیڈیل ——- زرداری

بے نظیر زندہ تھی تو بس وہی دکھتی تھیں ان کے پیچھے ھاتھ باندھے کھڑے زرداری پہ کبھی نظر ھی نہیں پڑی تھی بے نظیر کی زندگی میں میں انھیں مسٹر بے نظیر کہا کرتی تھی بے نظیر کی وفات کے بعد انھوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا اور سیاست میں ایسا قدم رکھا کہ ساری قوم کو کھپا دیا

پہلی بار مجھے جس بات نے ان کی طرف متوجہ کیا وہ وعدے حدیث نہیں ھوتے کا بیان تھا میں سوچا واؤ پکا ایمان والا مسلمان ھے صحیح بات ھے حدیث حدیث ھے اب زرداری کوئ کافر تو نہیں جو ایک عام بات کو حدیث کا درجہ دے دے

پھر نواز شریف کی بانھوں میں بانھیں ڈالے گانے گاتے ھوئے ایک ایک قدم آگے بڑھے جیسے شطرنج کا کھلاڑی اپنی چال چلتا ھے ایک ایک کر کے پرانے پیپلز پارٹی کے ممبرز کو ھٹاتے ھوئے خود کو ھر مقدمے سے بری کرتے ھوئے صدر کی کرسی پہ بیٹھے ان کے ساتھ ھی ملکی معیشت بھی بیٹھ گئ

خیر ان سب باتوں سے اندازہ ھوا وہ ایک زبردست سیاست دان ھیں بے نظیر کی قد آور شخصیت کے پیچھے ان کی شخصیت چھپی ھوئ تھی وہ اب کھل کر سامنے آرھی ھے ان کے بہت سے دشمن ھیں مگر وہ خاموشی اپنی چال چلتے ھیں اور اپنے قصرِ صدرات میں رھتے ھیں کسی سے کچھ نہیں کہتے جب ملک میں کوئ مشکل ھوتی ھے تو غیر ملکی دوروں پہ چلے جاتے ھیں یہ بہت ھی اچھی عادت ھے میں بھی ایسے کرتی ھوں جب کہیں کوئ لڑائ ھونے لگتی ھے چھپکے سے وہاں سے کھسک جاتی ھوں

اب جو جلتے ھوئے ملک پہ انھوں نے اجرک پھینکی ھے وہ قابل ِ تعریف عمل ھے زرداری میرے آئیڈیل ھیں دل کرتا ھے ان کا پتلا بنا کر اپنے گھر کے لان میں لگوا دوں اور دن رات دیکھا کروں

کالمی لوٹے

میرے جیسے کتنے لوگ ھوں گے جو پاکستان سے دور ھیں ملکی حالات جاننے کے لیے صبح صبح مختلف اخبارات کے کالم کا مطالعہ کرتے ھیں میری طرح وہ بھی سمجھتے ھیں کالم نگار جو بھی کہہ رھا ھے سچ کہہ رھا ھے اس کی ھر بات پہ یقین کر لیتے ھیں جس سیاست دان کے بارے میں لکھا جاتا ھے وہ ایمان دار ھے لوگ اسے ایسا ھی سمجھنے لگتے ھیں

کچھ کالم نگار سیاستدانوں کے خاموش سفیر ھوتے ھیں سیاستدانوں کی سیاست کا دارومدار کالمی لوٹوں کے کالم پر ھوتا ھے پہلے میں سمجھتی تھی صرف سیاست میں ھی لوٹے ھوتے ھیں مگر جب سے اخبارات کا مطالعہ شروع کیا مختلف کالم نگاروں کو بغور پڑھنا شروع کیا تو احساس ھوا ادب کی دنیا میں بھی لوٹے وافر مقدار میں پائے جاتے ھیں لوٹے چند ایک ھیں جو وقت بدلنے پہ اپنا سیاسی لیڈر بدل لیتے ھیں

میں اکثر سوچتی تھی یہ سیاسی لوٹے اتنا عرصہ سیاست میں کیسے ٹکے رہ سکتے ھیں اس کی ایک ھی وجہ ھے سیاسی لوٹوں کا سیاست کا سفر کالمی لوٹوں کی بدولت چلتا ھے جن کی بنا پر کالمی لوٹوں کو نوازا جاتا ھے جو وہ کہتے ھیں سچ کہتے ھیں اور ڈنکے کی چوٹ پہ کہتے ھیں وہ اور بات ھے وقت کے ساتھ ان کا سچ بدل جاتا ھے اور سچ بولنے کی قیمت بھی

ایک کالم نگار شروع میں مشروف کو ایک مسیحا کہتے تھے جنھو ں نے اتنے مشکل وقت میں ملک کو سہارا دیا پاکستان کو مشکل وقت سے نکالا اپنی جان کی پرواہ کیے بنا اس وقت پاکستان کو ایسے ھی کسی بہادر سیاسی لیڈر کی ضرورت تھی پھر وقت نے کروٹ لی بے نظیر کی واپسی ھوئ تو ان کا کالم آیا پاکستان کی تقدیر بے نظیر — بے نظیر کے بعد وہ نواز شریف اور زرداری کے گن گانے لگے کیونکہ انھیں نہیں پتا تھا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا –

زرداری کے صدر بننے کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا نھیں پہلے ھی احساس تھا زرداری ایک بہترین لیڈر ھیں بہترین سیاست دان ھیں انھوں نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا جب پاکستان کے وجود کو خطرہ تھا اگر زرداری یہ نعرہ نہیں لگتےتو پتا نہیں پاکستان کا کیا حال ھوتا پاکستان کے صدر بننے کا حق دار ان سے بڑھ کر کوئ نہیں ھو سکتا انھیں پاکستان کے حالات بدلتے ھوئے نظر آنے لگے جو ایک آمر کے دورِ حکومت میں نا گفتہ بہ ھو چکے تھے

پھر مشرف کے احتساب کا نعرہ بلند ھوا تو ان کے کالم اِحتساب پہ تھے احتساب بہت ضروری ھے ایک ایسے شخص کا جس نے ملک کی بیٹی کو دشمنوں کے حوالے کیا معصوم فرشتوں جیسی بچیوں کا جلا دیا ایک سفاک انسان کو ایسی سزا ملنی چاھیے تو آنے والوں کے لیے عبرت ھو

کل ان کا ایک کالم پڑھا نواز شریف کی خاموشی میں انھیں ایک بہت ھی زہین انسان چھپا ھوا نظر آرھا ھے بصیرت سے بھرپور جس نے اتنے سالوں میں بہت کچھ سیکھا ھے

یہ دنیا کے لوگ کتنے رنگ بدلتے ھیں سامنے کی تصویر بدلتے ھی ان کی سوچ بدل جاتی ھے پاکستان میں لوگوں کے ایمان ھی نہیں قلم بھی بک جاتے ھیں اب کس پہ یقین کریں کس پہ نہ کریں


چھ سالہ بچے کی معلم کے ھاتھوں موت

ابھی ٹی وی پہ خبر دیکھی ایک چھ سالہ بچے کو معلم نے تشدد کر کے مار دیا اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنا سبق یاد نہین کیا تھا کیا یہ اتنا بڑا قصور ھے جس کی سزا میں ایک چھوٹے سے بچے کے ڈنڈے گھونسے لاتیں مار مار کر جان سے ھی مار دیا جائے

بچے کے ایک ساتھی سے کہا گھر والوں سے کہے کہ بچے کو خون کی الٹی آئی تھی جس کی وجہ سے اس کی موت ھو گئ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ھو چکے ھیں کئ بار قرآن کی تعلیم دینے والے مولوی حضرات کے بارے میں پتا چلا وہ بچوں سے زیادتی کرتے رھے ھیں بہت کم واقعات میڈیا کے سامنے آتے ھیں جو واقعات سامنے آتے ھیں انھیں بھی نظر انداز کر دیا جاتا ھے

کیا یہ واقعات اس قابل ھیں کہ انھیں نظر انداز کر دیا جائے ؟؟؟

کیا کسی غریب بچے کی جان کی کوئ حیثیت نہیں ؟؟؟

کسی معلم کی قابلیت چیک کرنے کا کیا معیار ھے اگر کسی مولوی یا کسی ملا کے بارے میں کچھ کہا جاتا ھے تو بہت سے حضرات لٹھ لے کر کھڑے ھو جاتے ھیں ان کا فرمانا ھے یہ مولوی نہ ھوتے تو کون پیدائش کے بعد کان میں آذان دیتا کون قرآن کی تعلیم دیتا کون مسجدوں میں اذان دیتا کون مرنے کے بعد جنازہ پڑھاتا پھر بھی لوگ ان کی عزت نہیں کرتے

کیا کوئ بھی قرآن پڑھانا شروع کر دے اس کو چیک کرنا ضروری نہیں اکثر ایسے لوگوں کی بہت تعظیم کی جاتی ھے اگر ان کے بارے میں کوئ بات سنیں بھی تو کہا جاتا ھے وہ تو قرآن پڑھاتے ھیں نیک انسان ھیں

کیا سب پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار کرنا چاھیے جب کوئ ایسا واقعہ ھوتا ھے وقتی شور اٹھتا ھے مگر کیا کچھ بھی نہیں جاتا اس خبر پہ بھی ایک دن تبصرہ کیا جائے گا ٹی وی والے چند بار دیکھائینگے پھر نئ خبروں میں یہ خبر بھی گم ھو جائے گی

معذرت میں ھرمولوی یا ھر داڑھی والے کو قابل ِ احترام نہیں سمجھتی اسلام دل میں ھوتا ھے داڑھی میں نہیں

کیا یہ میرا خواب تھا ؟؟

آج ایک نئ زرعی یونیورسٹی کا افتتاح کرنے وزیرِ اعظم تشریف لا رھے تھے سب کے چہرے خوشی سے دمک رھے تھے وزیرِاعظم سادہ شلوار قمیض زیبِ تن کیا ھوا تھا کسی نے ان سے پوچھا پہلے وزیرِاعظم زیادہ ترتھری سوٹ پہنتے تھے تو انھوں نے مسکرا کر کہا شلوار قمیض پاکستان کا قومی لباس ھے اور مجھے اس لباس سے اچھا کوئ لباس نہیں لگتا مجھے اپنے پاکستانی ھونے پہ فخر ھے چھ مہینوں میں یہ چوتھی زرعی یونیورسٹی تھی جس کا افتتاح ھورھا تھا زریرِاعظم فرما رھے تھے پاکستان ایک زرعی ملک ھے یہ بات ھمارے لیے قابل ِ شرم ھے کہ ایک زرعی ملک کے رھنے والوں کو دو وقت کا کھانا نہیں مل رھا یہ ٹھیک ھے اب حالات پہلے جیسے خراب نہیں ابھی زراعت کے میدان میں ھمیں بہت تحقیق کی ضرورت ھے یہ بہت ھی خوش آئند بات ھے غیر ممالک میں بہت سے پاکستان جو اس میدان میں کام کر سکتے ھیں وہ ملک واپس آئے اور ملک کی خدمت کر رھے ھیں

کھانے میں صرف دو کھانے اور سادہ پانی تھا ایک اخباری رپورٹر نے کہا ھم سمجھے تھے وزیرِاعظم کے ساتھ کھانا بہت پر تکلف ھوگا تو انھوں نے مسکراتے ھوئے کہا قومی خزانہ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا وہ بہت کم بات کر رھے تھے زیادہ لوگوں کو سن رھے تھے ان کی رائے جاننا چاہ رھے تھے وہ اپنی چھوٹی سی کار میں آئے تھے

یہ انقلاب اس وقت آیا جب ملک میں ذخیرہ اندوزی رشوت بے ایمانی قومی خزانے کی لوٹ مار دھشت گردی بڑھ گئ تھی تو عدالت نے انقلابی فیصلے کیے ملکی خزانے کو لوٹنے والوں ذخیرہ اندوزوں کی سخت سزائیں دیں جب ایک روٹی چوری کرنے والے کو سزا ھو سکتی ھے تو بجلی چوری کرنے والوں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ھے چوری چاھے کسی چیز کی بھی ھو چوری ھوتی ھے ملک کے بہت سے نامی گرامی لوگوں کو عمر قید اور قید با مشقت کی سزائیں ھوئیں قومی خزانی لوٹنے والوں کے ھاتھ کاٹے گئے غلط پالیسی بنانے والوں سابق حکمرانوں اور ذخیرہ اندوزوں اور رشوت لینے والوں کو سرِ عام کوڑے مارے گئے اس کے بعد کوئ بھی عام آدمی غلط کام کرنے سے پہلے سوچنے لگا اگر اتنے بڑے لوگوں کو سزا ھو سکتی ھے تو ھمیں کون معاف کرے گا صدر صاحب نے فارم ھاؤس کلچر ختم کیا تمام زمینیں غریب کسانوں میں تقسیم کی آٹھویں تک تعلیم لازمی قرار دی اس کے بعد جتنے بھی ذھین طالب علم ھیں اس کی تعلیم کا خرچہ حکومت برداشت کرے گی سارے ملک میں ایک تعلیمی نظام لازمی قرار دیا ایک وزیر ھو یا ایک غریب مزدور کا بیٹا اسے ترقی کے ایک سے مواقع ملنے چاھیے – چھوٹی صنعتوں کو فروغ کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے غریب مزدوروں اور کاریگروں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا محنت کش کسی بھی ملک کے لیے ریڈھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتے ھیں

چند سالوں میں ملک کے حالات تیزی سے بدلے تھے میں نے اپنے کمرے سے شاہ رخ اور بریڈ پٹ کی تصویریں اتار کر اپنے وزیرِ اعظم اور صدر کی تصاویر لگا دیں ھمارے اصل ھیرو تو یہی ھیں ایک دم میری آنکھ کھولی ٹی وی خبر آرھی تھی پشارو میں دھماکہ درجنوں زِخمی اور بہت سے لوگ مارے گئے نیچے بریکینگ نیوز چل رھی تھیں ٹرین پٹری سے اتر گئ – ایک خاندان کے پانچ لوگوں نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی ڈاکٹروں کی لاپرواھی سے تین سال کی بچی اپنی زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھی میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں کیا یہ خواب ھے یا حقیقت — اگر حقیقت ھے تو بہت خوفناک حقیقت ھے —- کیا وہ میرا خواب تھا ؟ کیا وہ ھمیشہ خواب رھے گا — کیا وہ کبھی حقیقت بن سکے گا ؟؟ یہ میرا ھی نہیں سولہ کروڑ عوام کا سوال ھے

وہ زخم آج بھی رستا ھے

آخری وقت تک دادی جان کے لبوں پہ ایک ھی بات تھی میرا بشیر آئے گا تایا بشیر فوج میں تھے مشرقی پاکستان میں تعینات تھے 1971 کے بعد ان کا کچھ پتا نہیں چلا وہ کہاں ھیں ان کی فیملی تھی بیٹی اور بیٹا تھا کسی نے کہا وہ جنگ میں شہید ھو گئے تھے

مشرقی پاکستان بہت سے لوگوں کو مارا گیا زندہ جلایا گیا وہ اور ان کی فیلمی زندہ تھی یا نہیں مگر دادی جان نے انھیں مرنے نہیں دیا کوئ دن ایسا نہیں ھوتا تھا جب ان کا زکر نہیں ھوتا تھا مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ھوا کہ مین ان سے نہیں ملی تھی ان کے بچوں کو میں نے نہیں دیکھا تھا ایسے لگتا تھا جیسے میرا بچپن ان کے ساتھ کھیلتے ھوئے گزرا ھو رات کو جب دادی جان کے پاس سوتی تھی تو تایا بشیر کی باتیں شروع ھوجاتیں وہ بچپن میں کیسے تھے ان کو بچے کیا کرتے تھے جب وہ گئے تھے اب کے بیٹے کو بولنا بھی نہین آتا تھا دادای جان حساب لگاتیں وہ اب کتنے بڑے ھو گئے ھوں گے کون سی کلاس میں پڑھ رھے ھونگے دادی جان نے جو خاکہ بنایا تھا بچپن میں میں‌ سڑک پہ چلتے ھوئے ان لوگوں کو کھوجا کرتی تھی

ایک بار گھر بیچنے کی بات ھوئ تو دادی جان نے یہ کہہ کہ انکار کر دیا تایا بشیر کو اس گھر کا پتا ھے انھوں نے اپنے بچوں کو اسی گھر کا پتا دیا ھو گا وہ واپس آئیں گے تو کیا کریں گے دادی جان کی آس کبھی ٹوٹی نہیں تایا جان نے جاتے ھوئے کہاں تھا اماں میں جلد ھی بچوں کے لے کر آؤں گا اور دادی جان مرتے دم تک انتظار کرتی رھیں

ان کی وفات کے بعد میں پتا چلا تایا بشیر میرے سگے تایا نہیں تھے وہ دادی جان کی مرحومہ بہن کے بیٹے تھے جنھیں مرتے وقت دادی جان کی گود میں دیا تھا اور وعدہ لیا تھا وہ انھیں اپنے بچوں کی طرح پیار کریں گی انھوں نے ااپنا وعدہ نبھایا اپنے بچوں سے بڑھ کر نہ صرف خود پیار کیا بلکہ وہ پیار اپنے آنے والی نسل میں بھی منتقل کیا

میرا سارا بچپن ان کے ساتھ گزرا دادای جان کی آنکھوں سے ھم نے انھیں شرارتیں کرتے جوان ھوتےدیکھا دادای جان کے ساتھ ھم نے بھی ان کا انتظار کیا – کسی اپنے سے بچھڑنے کا دکھ کیا ھوتا ھے وہ میں جانتی ھوں دادای جان کو میں نے گھولتے دیکھا ھے جب پاکستان سے لاپتہ افراد کے بارے میں پڑھتی ھوں تو ان کے خاندان کی حالات کا دلی کیفیت کا اندازہ لگا سکتی ھوں انسان آس کے دئیے کو بجھنے نہیں دیا یادوں کے چراغ جلائے رکھتا ھے مگر ان چراغوں کے ساتھ خود بھی جلتا ھے کچھ زخم کبھی نہیں بھرتے ان زخموں سے خون ھمیشہ رستا رھتا ھے