Sunday, February 22, 2015

کچھ میری پسندیدہ

دنیا بھر میں نئ سے نئ ایجادات ھو رھی ہیں - جنھیں دیکھ کر حیرت ذدہ رہ جاتے ہیں ۔ کچھ  تو مجھے بہت اچھی لگی ۔
میری سب سے پسندیدہ ونگ سوٹ ہے - بچپن سے ایک خواب تھا کاش میں پرندوں کی طرح  اڑ سکتی - ونگ سوٹ بنانے والے کا بھی شاید یہی خواب ھو ۔ میں نے صرف خواب  دیکھا تھا ۔ مگر کسی نے اسے حقیقت بنا دیا ۔
ونگ سوٹ آٹھ سو سے دو ھزار  یورو تک میں مل جاتا ہے وڈیو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کتنے مزے کی چیز ہے - ونگ سوٹ آٹھ سو سے دو ھزار  یورو تک میں مل جاتا ہے وڈیو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کتنے مزے کی چیز ہے - ہاں اس کے ساتھ پیرا شوٹ بھی چاھئیے جو  دو سے تین ہزار یورو کا مل جاتا ہے


ماحولیاتی آلودگی دنیا بھر کا مسلہ ہے زرائے آمد و رفت سے زندگی میں سہولت بھی اور سب کی ضرورت بھی ۔ یورپ میں اکثریت کے پاس ذاتی کار ہے ۔ عرصہ سے کوشش کی جا رھی ہے شہر یا کم فاصلے کی آمد و رفت کے لیے ایسی چیزیں بنائ جائیں جو کم پٹرول خرچ کریں اور کم آلودگی کا باعث ہوں رولر اسکوٹر سٹی بائیک کے مختلف نئے اسٹائل ھر سال سامنے آتے ہیں ۔ سب سے مزے کا مجھے ائر ویل یا سٹی ویل لگا ۔ چین اور جاپان سے شروع ھوا اب یورپ میں بھی کئ فرمیں بنا رھی ہیں چھ سو سے اٹھارہ سو یورو تک کا مل جاتا ہے بیٹری  کی  طاقت  رفتار اور وزن قیمت کے حساب سے مختلف  ہے  ۔ 

سب سے حیرت انگیز چیز تھری ڈی پرنٹر ہے اس سے ایک معمولی سے پیچ سے گاڑی اور مکان تک بنانے کے تجربات ھو 
رھے ہیں - جس حساب سے ٹیکنالوجی ترقی کر رھی ہے آئندہ آنے والے پندرہ  بیس برس میں آج کا زمانہ پس ِ ماندہ لگے ۔ جیسے آج سے پچیس تیس برس پہلے کے لوگ اگر زندہ ھو جائیں تو بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو انھیں حیرت ذدہ کر دیں گی 



Sunday, February 1, 2015

غیرت

وہ لوگ دادی اماں کی وہیل چیئر  دھکیلتے  ھوئے جلدی جلدی قدم اٹھاتے  ھوئے جا رھے تھے جیسے کوئ ایمر جنسی ھوں ۔ چئیر پہ بیٹھا وجود چادر میں  لپٹا  ھوا تھا  ۔ دونوں نے مل کر اسے کار میں بیٹھایا اور وہیل  چئیر گاڑی میں رکھ دی ۔ گاڑی
تیزی سے سڑک پہ بھاگنے لگی
------------------------
پولیس کو کسی نے اطلاع دی شہر کے قریب جنگل میں  پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ کے قریب جھاڑیوں میں کسی کی لاش پڑی ہے ۔ پولیس نے چاروں جانب سے علاقے کو گھیر لیا ۔ کاروائ شروع ھوئ ۔ تلاش کرنے پہ ایک پرس ملا ۔ جس سے اس کا نام جاننے میں آسانی ھوئ ۔ پانچ کیلومیٹر کے فاصلے   پہ ایک چھوٹی سی نو آبادی کا ایڈریس تھا  - پولیس آفیسر ہیڈ کواٹر پہ رپورٹ کرنے لگا ۔ انھیں اب اس ایڈریس پہ جاتا تھا 
---------------------------------------
عارف صاحب  اور ان کی اہلیہ دم  بخود کھڑے تھے ان کے سامنے ان کی بیٹی  تھی انھیں اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرھا تھا  جو انھوں نے سنا -کیا وہ  واقعی   ان کی بیٹی نے کہا ہے ۔ ان کی معصوم بیٹی جس نے انیس برس  ان کی ہر  بات مانی  کبھی کسی فیصلے سے اختلاف نہیں کیا   کبھی کسی فیصلے پہ سوال جواب نہیں کیا  آج وہ ان کے فیصلے کے خلاف تن کر کھڑی  تھی ۔ اس میں اتنا بدلاؤ کب آیا اور وہ جان نہیں پائے ۔ عارف  صاحب  نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جیسے نظروں ہی نظروں میں کہا  دیکھا اپنی تربیت ۔۔۔ انیس برس تک باپ کی تربیت تھی  آج ان کی ہو گئ  ۔۔۔۔۔۔

وہ آن لائن ھوئ تو ایک لڑکے کی فرینڈ شپ ریکوئسٹ  تھی ۔ اس نے  اسے ایڈ کر لیا ۔ کچھ دن کے بعد ہا ئے ھیلو ھوئ  پھر بات ختم  - پھر ایک دن ایک فورم پہ مذھب  کے بارے میں بحث ھوئ  اس کے بعد  ان کی مختلف موضوعات پہ بات ھونے لگی  ۔ اور آہستہ آہستہ دوستی ھونے لگی دوستی محبت میں بدلنے لگی  وہ  قریب کے  شہر کا رھنے والا تھا ا کچھ ملاقاتیں ھوئیں   انھیں لگا  وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں ۔ گھر میں شادی کی بات چل  رھی تھی  ۔ اگر شادی کرنی ہے تو کسی اور سے کیوں  ۔ دونوں کا تعلق پاکستان سے ہے دونوں   نے فیصلہ کیا  وہ اپنے گھر والوں سے بات کریں گے  انھیں امید تھی ان کے گھر والوں کو ان کے اس فیصلے پہ کوئ اعتراض نہیں ھوگا  ۔ رباب بہت پیاری  تھی وقاص اچھی شکل و صورت  کا مالک تھا  اس کا کورس مکمل ھوتے ہی جاب ملے کا  امکان تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رباب نےجب  اپنے گھر والوں کو وقاص کے متعلق بتایا  تو ان کے ری ایکشن  اس کی توقع کے خلاف تھا ۔ وہ نہیں جانتی تھی  اس کے  والد  اس کے رشتے کی بات  پاکستان اس کی پھپھو کر گھر کر چکے ۔ اس کا کزن اس کے لیے   اجنبی  تھا پاکستان  گئے کافی برس ھو گئے تھے  وہ اس کے بارے میں  نہیں جانتی تھی ۔ اس کا خیال تھا  وہ اپنی ماں کو اپنی بات با آسانی سمجھا سکتی ہے ۔  باپ  سے بات کرنا تھوڑا مشکل تھا  - مگر وہ پر امید تھی 
-------------------------
وقاص  اپنے گھر والوں سے ملوانے لے گیا  سب سے مل کر اسے بہت خوشی ھوئ سب اس کے بارے میں جانتے تھے  وقاص کے بہن بھائ اس کے امیا بو   بہت خوش تھے ان کے بیٹے نے ایک پاکستانی لڑکی کو پسند کیا  ورنہ  انھیں ڈھرکا لگا رھتا تھا کہیں وہ کسی کالی گوری کو پکڑ کر نہ لے آئے   ۔ انھیں رباب بہت پسند آئ تھی سکارف میں لپٹی ھوئ معصوم سی  گڑیا جیسی لڑکی 
--------------------------------------------
عارف صاحب  کوئ بات کرنے اور سننے کو تیار نہیں تھے  ۔ ان کی اہلیہ  صدمے کی حالت میں تھی لوگوں سے کیا کہیں گی  ان کی بیٹی نے لڑکا خود پسند کیا ۔ وہ لوگوں کو ھزار باتیں کرتی تھیں  اپنی بیٹی کی معصومیت اور فرمابرادری کی  ہر کسی کے سامنے ذکر کرتی تھی  شکر ہے ان کی بیٹی  یہاں پہ رھنے والے اور پاکستانی لڑکیوں جیسی نہیں ہے   وہ اسکارف لیتی  ہے  ۔  بہت فرمابردار بیٹی ہے -انھیں اب اس بات کی فکر تھی  لوگ کیا کہیں گے  ۔ ان کی بیٹی کیا کہہ  رھی تھی  اور کیا چاہ رھی تھی  اس کی طرف ان کا دھیان نہیں جا رھا تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص کے گھر والے پورے یقین کے ساتھ آئے ان کے بیٹے میں کوئ کمی نہیں  رباب کے گھر والے انکار نہیں  کریں گے    مگر عارف صاحب کا  سرد رویہ انھیں مایوس کر رھا تھا  وہ کوئ بات سننے  اور سمجھنے پہ تیار نہیں تھے   وہ لوگ خاندان میں شادی کرتے ہیں   اور فیصلہ ماں باپ کرتے ہیں اور فیصلہ وہ کر چکے ہیں   بیکار میں بحث کرنے کا کوئ جواز نہیں بنتا   رباب کا رشتہ طے ہو چکا ہے 
-------------------------------------------------
وقاص اور رباب نے فیصلہ کیا وہ کورٹ میرج کر لیتے ہیں  پھر  اس کے والدین کے پاس  انکار کی کوئ گنجائش باقی نہیں‌ رھے گی   - باقائدہ رخصتی  روائیتی  انداز میں اس  کے  والدین  کریں گے   - اسے یقین تھا  جلد ہی اسے پاکستان لے جا کر اس کی شادی کر دی جائے گی  اور وہ      وہاں شادی کرنا نہیں چاہتی تھی  ۔ انھیں اپنا فیصلہ مناسب لگا 
----------------------------------------------------------
گھر میں اس کے  ماموں ممانی آئے تھے اسے بہت خوشی ھوئ   اس کی اپنے ماموں سے کافی دوستی تھی  - ھنسی مذاق کرتے ھوئے  بات اس کی شادی کی چل پڑی  - ابو کہنے لگے  بس اگلی چھٹیوں میں وہ پاکستان جا رھے ہیں  رباب کی شادی  کر کے آئیں گے  - اس نے انکار کر دیا وہ پاکستان نہیں جائے گی  نہ وہ  وہاں شادی کرنا چاہتی ہے  
تم اتنی خود سر ھو گی میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا 
زندگی میں نے گزارنی ھے کیا  میری رائے کی کوئ اہمیت نہیں 
تم ابھی بچی ہو  کیا ہم تمہارا برا چاہیں گے 
مگر شادی کے لیے ایک دوسرے کو جاننا چاہیے   محبت ھونی چائیے 
جب ھماری شادی ھوئ  ہم بھی ایک دوسرے کے بارے میں نہیں جانتے تھے  ۔   کیا ہے اتنے عرصے سے  ایک ساتھ رہ رہے ہیں  کیا ہم میں محبت نہیں 
پہلے سب کی ایسے شادی ھوتی تھی  اب وقت بدل گیا ہے 
وقت نہیں بدلا  تم بدل گئ ہو اپنے باپ سے زبان چلا رہی ہو  - کوئ لحاظ نہیں تمہیں 
میں زبان نہیں چلا رہی میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں 
گستاخ ۔ انھوں  نے  تھپڑ رسد کیا  ۔۔۔۔ کیا تم مجھے سمجھاؤ گی اپنے باپ کو  ۔ ہم بے عقل ہیں  ہمیں  کوئ سمجھ نہیں 
میں نے آپ کو بے عقل نہیں کہا 
بس بہت ہو گیا  ۔ ہوگا وہی جو میں کہہ رھا ہوں  
میں یہ شادی نہیں  کروں گی
شادی  وہیں  ھوگی جہاں ہم کہہ رھے ہیں ۔  اس  کے لیے ہمیں زبردستی  کرنی پڑی تو ہم زبردستی بھی کریں گے 
اگر آپ  زبردستی کریں گے تو ہم کورٹ میرج کرلیں گے
تھپڑ گھونسے کی بارش ھونے لگی  ان کی برداشت ختم ھو چکی تھی 
وہ کمزور کی لڑکی اپنے آپ کو بچانے کی نا کام کوشش کر رہی تھی 
اس کی امی اسے بد تمیز  اور گستاخ کہہ رھی تھی   اگر وہ فرمابردار ھوتی تو ماں باپ کی بات مانتی ۔ وہ کتنے بد قسمت ہیں جو ایسی بیٹی ملی 
عارف صاحب پہ جنون سوار ھو رھا تھا  ۔ اسکی گردن پہ ان کی گرفت سخت ہوتی جا رھی تھی 
-----------------------------------------------------------------

ڈور بیل ھوئ سامنے پولیس آفیسر کھڑا تھا ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کی  رپورٹ درج کروائ تھی وہ کل رات سے لاپتہ تھی 
پولیس نے وارنٹ گرفتاری نکال کر سامنے کر دئیے ۔ وہ انھیں گرفتار کرنے آئے تھے 
---------------------------------------
پولیس کو یہ کیس حل کرنے میں کوئ دشواری نہیں ھوئ  ۔ رباب کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے  کے بعد سب سے پہلے انھوں پہ  ان کی رہائش گاہ کے گرد  سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی ۔ وہیل چئیر پہ  شام کو چادر میں لپٹی ھوئ دادی ماں نہیں     رباب تھی  ۔ جس کی لاش جنگل  میں پیدل اور سائیکل کے راستے  کی سائڈ پہ پھینکی  گئ تھی صبح  ھوتے ھی  گزرنے والی کی نظر پڑ گئ تھی 
-----------------------------------------------------------
ملک بھر کے اخبارات  کی ھیڈ لائنز یہ تھی
اسے مرنا ھی تھا ۔ اس نے محبت کی تھی
ماں باپ نے اپنی بیٹی کو خود مار دیا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاھتی تھی 
باپ نے غیرت میں آکر بیٹی کو مار دیا  - یہ غیرت کیا ھے ۔ جس کی وجہ سے2015 میں  79 لڑکیوں  مار دیا گیا 
حکومت ایسے  قتل کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کر سکتی  ۔ یہ کیس تب سامنے آتے ہیں  جب قتل ھو چکا ھوتا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارف صاحب کی غیرت   کیا تھی ۔ ضد ؟انا ؟  اپنی بیٹی   کا حکم عدولی   کرنا ؟ 

میرا رب

پارلر سے نکلتے ھوئے حسبِ عادت میں نے خدا حافظ کہا ۔۔ میرے ساتھ جو  میری دوست تھی اس نے میرا بازو زور سے دبایا - میں نے ا س کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے کے عجیب سے تاثرات تھے مجھے حیرت ھوئ میں نے ایسا کیا کہا یا کیا کر دیا جو وہ مجھے ایسے دیکھ رھی ھے 
وہ سرگوشی میں بولی تم نے اسے خدا حافظ کہا وہ تو ھندو ھے 
اس میں اتنی بڑی بات کیا ھے اللہ ھی حفاظت کرنے والا ھے 
مگر وہ تو بھگوان کو مانتے ھیں 
اگر اللہ کو نہیں مانتے تو کیا ۔ 
اس کی آواز رونے والی ھو گئ اللہ حافظ کا مطلب ھے اللہ حفاظت کرے ۔ جب وہ اللہ کو نہیں مانتی تو ھمارا اللہ کیوں حفاظت کرے 
میرا بے اختیار ہنسی آگئ - پہلے بھی کسی سے اسی بات پہ بحث ھو چکی تھی 
گویا ہم اللہ کو مانتے ہیں ہماری حفاظت کی ذمہ داری ہمارے اللہ پہ فرض ھے ۔۔ ہمارا اللہ کیوں اوو ٹائم لگائے اور ان لوگوں کی
حفاظت کرے جو اسے مانتے نہیں ہیں
 مطلب   کیا ہے  اس کا ؟؟؟
کیا واقعے  کوئ بھگوان ھے ؟؟ جس میں اتنی طاقت ہے وہ پیدا کرے حفاظت کرے لوگوں کی دعائیں سنے ؟؟
جب کوئ بیمار ھو تو بیماری میں شفاء دے ۔زندگی دے موت دے - کیا کوئ بھگوان ہے جو لوگوں کی دعائیں سن سکتا ھے ؟؟
نہیں ------ بالکل بھی نہیں 
کوئ اللہ کہے کوئ بھگوان ۔ کوئ گاڈ ۔۔ کوئ گرو کوئ سائیں    - رب کہو یا مولا 
پیدا کرنے والا ایک ھے وہ زندگی دیتا ھے موت دیتا ھے ۔ محنت کا پھل دیتا ھے وہ کوئ بھی ھو کوئ مسلمان ھو ھندو عیسائ یا دھریا 
ہے تو سبھی اس کے بندے ۔ ہاں تقویٰ کا فرق ہے ۔ 
دنیا میں اللہ کی پیدا کی ھوئ مخلوق چار سو نظر آتی ہے ۔ کوئ بھی بے مقصد نہیں ۔اللہ کسی کو بے مقصد پیدا نہیں کرتا  اس کی حکمت  ہم نہیں جانتے ۔ آنے والے وقت میں کیا ھوگا آج سے پچاس برس بعد  آج سے پانچ سو برس بعد مگر اللہ سب جانتا ھے ۔
ھزاروں برس پہلے جب ھندوؤں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجنا شروع کیا مگر اللہ نے انھیں تباہ و برباد نہیں کیا اس کے لیے تو کچھ بھی مشکل  نہیں - صرف ایک کن کہنے کی دیر ھے پھر سب کچھ ھونے لگتا ھے - اللہ جانتا تھا انھی بت پرستوں میں سے اللہ کے ماننے والے نیک لوگ پیدا ھوں گے ۔ ان ھندو عیسائیوں یا  دھریا لوگوں کی نسل سے کتنے نیک لوگ پیدا ھوں گے اللہ علم رکھتا ھے  -
ہم جلدی چاھتے ہیں ھر کام ھر فیصلہ میں  ۔ اگر اللہ نہیں کرتا تو ہم ھر کام ہر فیصلہ  ھر سزا خود دینا چاھتے ہیں 
اگر اللہ ہمارے ہر عمل کی سزا فوراً اور سخت دے تو شاید ہم جی   نہ پائیں  اور سہہ نہ پائیں -  جب ھماری اپنی باری آتی ھے تو ھم مان لیتے ہیں اللہ بہت رحمان  ھے ستر ماؤں سے زیادہ  محبت کرنے والا  ۔ کیا اللہ صرف ھم سے  ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ھے اور لوگوں سے نہیں ؟؟؟  ماں کے تو دس بچے بھی ھوں وہ سب سے محبت کرتی ہے چاھے کوئ معذور ہو ۔ چور ہو یا ڈاکو ۔ اپنے آوارہ بیٹے کے لیے زیادہ تڑپتی ہے آخری سانس تک  دعا کرتی‌ہے  اللہ کے حضور روتی  کہ اس کے بچے کو ھدایت دے ، بد دعا نہیں کرتی  مارتی نہیں ۔ اگر اس کا آوارہ بچہ سدھر جاتا ہے تو  ہر زیادتی کو بھول  کر سینے سے لگا لگتی ہے ۔ اللہ  رب العالمین ہے  سب کا مالک اور خالق ہے 
میں  جانتی ہوں میرا رب سب کا پیدا کرنے والا ھے رزق دینے والا ھے حفاظت کرنے والا ہے ۔ جب کوئ دنیا پانے کے لیے محنت کرتا ہے تو وہ اسے دنیا عطا کرتا ہے جب کوئ آخرت کے لیے محنت کرتے ہے تو اسے اجر دیتا ھے  ۔ 
میرے اللہ حافظ نہ کہنے سے انھیں نہ ھی تباہ کرے گا  ۔ میرے سلام نہ کرنے سے ان کی سلامتی کو کوئ خطرہ نہیں ھوگا - 
میں اتنا ضرور کرتی  ہوں  میں سب کو بتاتی ہوں میرا ایمان کیا ہے میرا اللہ پہ کیسا یقین  ہے  ۔ میں کسی سے نفرت نہیں کرتی  
یہ تصور  کرنا بھی شرک سمجھتی ہوں  ھندوؤں کا خالق بھگوان ہے ان کا مالک ان کا رازق  ان کی حفاظت کرنے والا  کوئ   بھگوان یا گاڈ ہے 
میں اسے رب کہوں مولا  اللہ یا خدا  وہ جانتا ہے میں اس سے  بات کر رھی  ہوں کسی اور کو نہیں پکار رھی  ۔ وہ دل کی آواز  بھی سن لیتا ہے  جب کوئ بات سوچتی ہوں  وہ پھر بھی جان لیتا ہے  وہ میرا   رب ہے