Saturday, April 6, 2013

ظاہر






چینل بدلتے بدلتے ایک لمحے کے لیے ایک چہرے کو دیکھ کر رک گئ ۔ چہرہ کیا تھا جیسے کوئ خلائ مخلوق ھو ۔ جھلسا ھوا چہرہ جس کے نقوش بگڑ چکے تھے چہرے پہ کوئ بال نہیں تھے آنکھوں کے دائروں میں  پتلیاں حرکت کرتی ھوئ نظر آرھی تھی عمر کیا تھی کچھ اندازہ نہیں ھو رھا تھا

چہرہ دیکھ کر عجیب سا محسوس ھو رھا تھا دل نہیں چاہ رھا تھا کہ مذید دیکھوں چینل بدلنے لگی تو اس نے اپنے خوابوں اپنی خواہشات کی بات شروع کر دی میں چینل بدلتے بدلتے حیرانی سے رک گئ کیا اس کے بھی خواب ھیں یہ بھی جینا چاھتا ھے

وہ ڈرائیونگ کر رھا تھا ایکسڈنٹ ھوا گاڑی میں آگ لگ گئ مدد آنے میں کچھ منٹ لگے مگر انسانی جلد جھلسے میں کتنی دیر لگتی ھے اس کی زندگی تو بچ گئ مگر چہرہ جھلس گیا اس کا دل وھی تھا سوچ بھی وہی زندگی کے بارے میں اس کے خواب اور آرزوئیں وہی تھی


مگر لوگوں کی اس کے بارے میں سوچ بدل چکی تھی کیونکہ اس کا ظاھر بدل گیا تھا لوگ چلتے چلتے رک کر ایک لمحے کے لیے ترس رحم اور خوف ذدہ نظروں سے اسے دیکھتے ھیں  - اور وہ ایک نظر انسان کو توڑنے کے لیے کافی ھوتی ھے  انسان کتنا بھی مضبوط ھو کب تک ایسی نظروں کا مقابلہ کر سکتا ھے


دوستوں کے ساتھ اس کی تصاویر دیکھائ جا رھی تھیں اٹھائیس برس کا ایک خوبصورت نوجوان جیسے لوگ آنکھوں میں ستائش لیے کچھ حسد کچھ رشک سے دیکھتے ھو ں گے اور اب کچھ دن میں دنیا بدل گئ  - دنیا والے تو ظاہر دیکھتے ھیں ۔ وہ کسی بات پہ ہنسا پتا نہیں ہنسی کرب یا بے بسی کا احساس ۔ اس کے مسخ شدہ چہرے سے کچھ اندازہ نہیں ھو رھا تھا ۔ وہ باتوں سے ایک زندہ دل ایک اچھی سوچ والا نوجوان لگ رھی تھا مگر اس کا چہرہ اس کی سوچ سے میچ نہیں ھو رھا تھا ۔


 ھم پہلی نظر میں کسی کے اچھے اور برے ھونے کی سند چہرہ دیکھتے ھی دے دیتے ھیں - کسی عام سے انسان کو بد شکل یا بد صورت کتنے آرام سے کہہ دیتے ھیں - ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ھوئے بھی سوچتے ھیں - کسی کے اچھے اور برے ھونے کا کچھ عرصے بعد ھوتا ھے  ھم عام انسان ھیں خدا تو نہیں جو پل بھر میں دل میں جھانک لیں کسی کی سوچ کو پڑھ لیں وہ اندر سے کتنا اچھا انسان ھے


میں کب سے سوچ رھی ھوں ۔ انسان بھی کیا ھے - سب ایک جیسے ھوتے ھیں بظاہر رنگ و روپ الگ ایک جیسا خون کا رنگ اگر کھال نہ ھو تو اندر سے ایک جیسا -- ایک جلد کا رنگ خوبصورت اور بد صورت بنا دیتا ھے صورت کیسی بھی ھو  مگر ھر انسان محبت عزت اور دنیا میں نام چاہتا ھے ۔ اتنا سوچنے اور غور کرنے کا وقت کس کے پاس ھے

بس اللہ اور اللہ والے جو حقیقت میں اللہ کے قریب ھوتے ھیں ان کے لیے امیر غریب خوبصورت بد صورت برابر ھوتے ھیں ۔ بلکہ ھر نبی کے قریب پہلے یہ عام سے لوگ ھو ھوتے ھیں اللہ والے پہنچان لیتے ھیں کون اندر کتنا خاص انسان ھے - ظاہری شان و شوکت جاہ و دولت حسن متاثر نہیں کرتا میں بھی ایک عام سی انسان ھوں جس کو ظاہر زیادہ متاثر کرتا ھے ٹی وی پہ نظر آنے والے  چہرے سے ھمدردی تو محسوس ھو سکتی ھے - مگر اس کے اچھے انسان ھونے کے نوے فیصد نمبر میں پہلی ھی نظر میں کاٹ چکی ھوں

4 comments:

  1. شاید یہ ہماری نفسیاتی کمزوری بھی ہے کہ شکل و صورت کو دیکھ کر ہم انسان کی شخصیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اگر کوئی دکھنے میں اچھا ہے تو ہم یہ خود ہی سے عکس بنا لیتے ہیں کہ یہ اچھے کردار اور شخصیت کا مالک بھی ہوگا۔ ڈراموں اور فلموں میں یہی دکھایا جاتا ہے۔ ولن ہمیشہ بد صورت اور ڈراونی شکل کا ہوتا ہے۔ اور ہیرو خو ش شکل!۔
    مگر حقیقت کچھ مختلف ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے میرے ساتھ بے وفائی کی، فلاں دوست نے دھوکہ دیا۔ خصوصاََ شعرا ٹائپ لوگ کہ فلاں محبوب نے بے وفائی کی۔ میرے نزدیک اس کی وجہ بھی یہی نفسیاتی کمزوری ہے کہ انسان کسی کی اچھی شکل و صورت یا خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسے پسند کرتا ہے تو مختلف توقعات اس سے وابستہ کر لیتا ہے۔ خوب صورت انسان جب ان توقعات پر پورا نہ اُترے تو وہ بے وفا بن جاتا ہے۔
    حقیقتاََ ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ شاید یہ ایک غلط معیار ہے جو معاشرے میں رواج پا چُکا ہے!۔

    ReplyDelete
  2. از احمر

    متفق

    ReplyDelete
  3. Theek kaha ....aik pehlu ye..... K zahir ko sarahtey hein...or rooh ko nahi daikhty.....

    ReplyDelete
  4. پہلی بار اس بلاگ پر آنا ہوا اس تحاٹ پرو'وکنگ تحریر کو پڑھ کر اچھا تو لگا مگر اپنے ارد گرد پھیلے نام کے معاشرے میں موجود انسانی رویوں بارے سوچ کر اب لفظ اچحا غیر موضوں لگ رہا ہے۔
    ہم آج اس معاشرے میں زندہ ہیں کہ جہاں کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ کسی کے بارے میں صحیح سے جان سکے بس دکھاوں پر رائے قائم کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی قسم، خواص، اور قیمت کی چیز میں سے کسی ایک پر کسی بڑے برانڈ کا لوگو لگ جائے تو اسکی قیمت بحی بڑھ جاتی ہے اور ہم ہنسی خوشی اس کو عدا بحی کر دیتے ہیں۔ یہی حال ہم نے انسانوں کے ساتھ کیا ہے۔ جیسکی ظارہری چکا چوند زیادہ ہے ہمارے نزدیک وہی اچھا ہے اس پر معاشری سٹیٹس کی چحاپ تو نظ کو خیرہ کر دینے والی چمکت دمک دے دیتی ہے اور کءی عیب چحپ جاتے ہیں۔
    ہمارے معاشرے میں آج معیار اور ترجیھات کی جو روش ہے اس میں ضاہر ہی کا سب کھیل ہے۔

    ReplyDelete