پندرہ نومبر کی شام وہ اپنی دوستوں کے ساتھ ایک ریسٹورانٹ میں گئ وہ کھانا کھا رھی تھی
ایسے میں کچھ آوازیں سنائ دی کچھ لڑکے لڑکیوں کو چھیڑ رھے تھے تنگ کر رھے تھے یہ آوازیں ریسٹورانٹ کے پیچھلے حصے سے آرھی تھیں وہ اٹھ کر دیکھنے گئ بیت الخلاء کے سامنے چند لڑکے کھڑے تھے ان کے درمیان تیرہ برس اور سولہ برس کی دولڑکیاں کھڑی تھی وہ دونوں وہاں سے جانا چاہ رھی تھی مگر لڑکے رستہ روک ے ھوئے تھے اور انھیں چھیڑ رھے تھے
اس لڑکی نے لڑکوں کو منع کیا - ان کی بحث کی آواز سن کر ریسٹورانٹ میں موجود افراد بھی آگئے جس پر وہ لڑکے چلے گئے کچھ دیر کے بعد جب وہ لڑکی کھانا کھا کر نکلی تو پارکنگ ایریا میں وہ لڑکے کھڑے تھے اسے تنگ کرنے لگے ایک لڑکے نے زور سے دھکا دیا وی نیچے گر گئ سر کے پیچھلے حصے پہ چوٹ لگی اور وہ گرتے ھی بے ھوش ھو گئ
اسی شور میں ریسٹوانٹ موجود لوگ باھر آئے ایمبولینس آئ اسے سٹی ہاسپیٹل لے گئ پولیس آئ مگر لڑکے بھاگ چکے تھے ۔ فوراً ٹی وی اور ریڈیو پہ نیوز آنا شروع ھو گئ ایک لڑکی توگچ البیراک دو لڑکیوں کو بچاتے ھوئے زخمی ھو گئ ھے ۔ درجنوں لوگ سٹی ہاسپیٹل پہنچے پتا چلا وہ کوما میں جا چکی ھے
اگلے دن ملک بھر کے تمام اخبارات کے پہلے صفحے پہ یہی خبر تھی ٹالک شوز میں موضوع بحث توگچ البیراک تھی ۔ جس جگہ یہ حادثہ ھوا لوگ شمع جلا رھے تھے ھسپتال کے سامنے پھولوں کے ڈھیر اکٹھے ھو گئے تھے لوگ اس کے لیے دعا کر رھے تھے
توگچ البیراک کے والدین کا تعلق ترکی سے ھے وہ مسلمان ھیں - سی سی ٹی وی فوٹیج کے مدد سے لڑکوں کی تلاش جاری تھی ۔ اور توگچ ابھی تک کوما میں تھی ۔ دو ہفتے گزر گئے ۔ اس کے ہوش میں آنے کی امید ختم ھوتی جاری تھی اور لوگوں کی د عاؤں میں تیزی آتی جا رھی تھی
28 نومبرآگیا توگچ کی تیئسوئیں سالگرہ تھی آج ڈاکٹروں نے فیصلہ کرنا تھا اس کا سارا خاندان ہسپتال میں اکٹھا تھا اور باھر سینکڑوں لوگوں کا ہجوم شمعیں جلائے ڈاکٹروں کے فیصلے کا منتظر ۔
توگچ کے گھر والوں کو بتایا گیا توگچ کا دماغ مر چکا ھے وہ کبھی ھوش میں نہیں آسکتی ۔ وہ صرف مشینوں کی مدد سے سانس لے رھی ھے -
اس کے خاندان والوں نے فیصلہ کیا اگر اس کے دماغ مر چکا ھے تو پھر مشینیں اتار دی جائیں آج کے دن جب اس کی سالگرہ ھے جو اس کے دنیا میں آنے کا دن ھے وہی اس کا آخری دن بھی قرار پایا
تین دسمبر کے دن اس کی آخری رسومات تھی نمازِ جنازہ میں ترک اور عرب مسلمانوں کے علاوہ ھزاروں لوگوں کے علاوہ صوبائ وزیر بھی شامل ھوئے ترکی کے جھنڈے کے ساتھ جرمنی کا جھنڈا بھی لہرا رھا تھا - اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا ۔ جس طرح کسی قومی ہیرو کو دفنایا جاتا ھے
اسے دھکا دینے والا اٹھارہ سالہ مجرم پکڑا جا چکا ھے -ابھی اس کا نام میڈیا پہ بتایا نہیں گیا- توگچ اس دنیا سے جا چکی ھے اس کے استاد کے خیال ھے توگچ کو اعلی ترين سول ايوارڈ ’فيڈرل کراس آف ميرٹ ' دیا جانا چاھئیے وہ اس کی حقدار ھے اس پيٹيشن پر اب تک ايک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد دستخط کر چکے ہيں۔
توگچ البیراک کی موت کا افسوس ہوا۔ :-(
ReplyDeleteاچھے اور برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن زندہ معاشرے اچھے لوگوں کو ہر صورت میں عزت بخشتے ہیں اور برے لوگوں کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اس طرح اچھائی کی ترویج ہوتی ہے اور برائی کم ہوتی ہے۔ ویسے اگر ہمارے ہاں ایسا واقعہ ہوتا تو ہمارے میڈیا سے یہ بھی بعید نہیں کہ خبر کو سنسنی خیز بنانے کے لئے کیا سے کیا رنگ دے دیتا۔
سلام اور ویلکم ایم بلال ایم
Deleteاچھے برے لوگ یہاں بھی ھیں ۔ مگر ایک بات ھے جب بھی کوئ واقعہ ھوتا ھے ۔ تو اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی جاتی مجرم کو سامنے لایا جاتا ھے ۔ پاکستان میں کئ واقعات ھوتے ھیں چوری ڈاکے اور اغواء اور زیادتی کے نجانے کتنے لوگ مقابلہ کرتے ھوئے مارے جاتے ھیں ۔ مگر ایسے واقعات کثرت سے ھوتے ھیں اس لیے صرف ایک خبر ھوتے ھیں -
اور جن واقعات کے پیچھے بڑے لوگ ھوتے ھیں ان کی سچائ کبھی سامنے نہیں آتی ۔ گم ھو جاتی ھے یا کر دی جاتی ھے
تبصرہ کرنے کا شکریہ
ایک افسوس ناک حادثہ
ReplyDeleteتوگج کی موت سے دل دکھی ہوا ۔ڈر اس بات کا تھا کہ کہیں توگج کو بھی نسلی امتیازات کے بھینت نہ چڑھایا جائے،لیکن جرمنی کا سُن کر کم ازکم دل مطمئن ہوا کہ اس ملک کے بارے میں معلومات حوصلہ آفزاء ملی ہیں۔
پاکستان میں بھی اسطرح کے واقعات ہوسکتے ہیں،لیکن واقعی ہمارے جذباتی روئے ان واقعات کو غلط رو کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں۔
جس میں شائد میڈیا اپنی ریٹینگ بڑھانے کیلئے بھی شریک ہوسکتا ہے۔
سلام اور ویلکم منصور مکرم
Deleteجرمنی میں نسلی امتیاز عام نظر نہیں آتا ۔ مگر ھے - پیچھلے کچھ ماہ سے کئ بڑے شہروں میں غیر ملکیوں کے خلاف جلوس نکالے گئے ھیں ۔ ان کا خیال ھے جرمنی جرمنوں کا ھے ۔ لوگ اسائلم لے کر آتے ھیں ۔ اور ان کے حصے دار بن جاتے ھیں - جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد مسلسل بڑھ رھی ھے - اس کی وجہ مسلم ممالک سے مسلسل آمد اور شرح پیدائش ھے ۔ ھماری نفرت اور محبت آنکھوں میں لکھی ھوتی ھے - جرمن کی دل مٰیں ھوتی ھے -
پاکستانی میڈیا ریٹینگ کی دوڑ میں کر بات کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کرتے ھیں ۔ وہ اور کریں بھی کیا چوبیس گھنٹے چینل بھی تو چلانا ھوتا ھے اور خود کو سب سے اچھا بھی ثابت کرنا ھوتا ھے
تبصرہ کرنے کا شکریہ
اللہ تعالی اس کی اس کاوش کو قبول کرے اور اسے جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ اور معاشرے کے لئے مشعل راہ بنائے۔
ReplyDelete