Thursday, January 8, 2015

امن اور چنگاڑی

بوڑھی جرمن عورت کانپ رھی تھی شاید وہ سب مناظر اس کی نظروں کے سامنے آگئے تھے - برسوں پھیلی جنگ  اجڑے دیار - بھوک سے تڑپتے بچے سنسان گلیاں  بات کرتے کرتے وہ رونے لگی ھم جنگ نہیں چاھتے وہ بہت تکلیف دہ ھوتی ھے کوئ تصور نہیں کر سکتا کوئ بیاں نہیں کر سکتا کوئ محسوس نہیں کر سکتا اس کرب کو اس تکلیف کو - وہ روتے 
ھوئے کہہ رھی تھی 


آج کے نوجوان کیا جانیں  جنگ کیا ھوتی ھے جو امن کے زمانے میں پیدا ھوئے جنھیں کچرے کے ڈھیر سے ایک ایک 
روٹی کے ٹکڑے کو چننا نہیں پڑا  جنھیں صاف پانی کے لیے ترسنا نہیں پڑا - سڑکوں ھفتوں پڑھی لاشیں نہیں دیکھنی پڑی - ھم جنگ نہیں چاھتے ھم امن چاھتے ھیں  بہت مشکل سے ھم اس مقام تک پہنچیں ھیں  - دن رات کام کیا ھفتے کے سات دن سولہ سولہ گھنٹے  - 




یہ بات آج کل نوجوان کیا جانیں جو آٹھ گھنٹے کام کرتے ھیں محنت نہیں کرتے سگریٹ پینے کے لیے بار باروقفہ چاہتے ھیں ماں باپ کی کمائ پہ عیاشی کرتے ھیں -ھم نے  اپنے بچوں کو  ھر آسائیش  دی کیونکہ ھم خود ترس ترس کے زندگی گزار چکے تھے اپنے ملک کو بنانے کے جنون میں اپنی زندگی بہتر بنانے کے جنون میں ھم بہت سی باتیں اپنے بچوں کو سیکھانا بھول گئے  - انسانیت اور امن کا سبق  - ھم یہ سیکھنا بھول گئے امن سے بڑھ کر کوئ چیز نہیں  - 
اسائلم کے لیے  ھزاروں لوگ  جرمنی آتے ھیں  انھیں پناہ دی جاتی ھے  غیر  ملکیوں نے  جرمنی کی تعمیر میں حصہ  لیا بہت کام کیا -  انھیں جرمن کے برابر حقوق دئیے گئے - مشرقی جرمنی  لمبا عرصہ جرمنی سے الگ رھا  - بہت ظلم برداشت کیے   غیر ملکیوں کے لیے ان کے دلوں میں نفرتیں ھیں   - جو مختلف  واقعات سے سامنے آتی رھتی ھے - ملک بھر میں سکون تھا  ایک دراڑ  نائن الیون کے بعد  پڑی  جو مٹی نہیں -  آہستہ آہستہ  غیر محسوس طریقے سے پھیلتی رھی  - سلو 
پائیزن  کی طرح 





ایک مخصوص  سوچ کا حامل  نازی  گروپ کے جلسے جلوس غیر ملکیوں کے خلاف  ھوتے تھے جسے پر امن جرمن ناپسند یدہ نظروں سے دیکھتے تھے  - آج غیر ملکیوں کے خلاف جلوسوں میں حاظرین کا تعداد پندرہ سے بیس ھزار تک پہنچ چکی ھے  جو قابلِ تشویش  ھے 
ان جلوس کے مقابلے پر ایک بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کے حق میں بھی جلوس نکل رھے ھیں  - مگر مخالفت میں نکلنے والے  جلوسوں کی حاضری بڑھتی جا رھی ھے  - ایسا یورپ کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے میں آرھا ھے  - ایک آلارم بج رھا ھے ۔ چند ایک  مسلمان ممالک کے علاوہ  باقی مسلم ممالک اندرونی مسائل کا شکار ہیں   یا ایک دوسرے کو ھی اپنی نفرت کا نشانہ بنا رھے ھیں ۔ اگر یورپ میں نفرت کی آگ پھیل گئ تو  بہت بڑے اور نا قابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا  جس کا ابھی اندازہ نہیں کر سکتے 

امن کی باتیں کرنی والی بوڑھی جرمن آج مر چکی ھے  ۔  اب سڑک پر  آج کا نوجوان کھڑا ھے جو نہیں جانتا ماضی کیا تھا کون کون سی مشکلات تھیں  ۔ غیر ملکیوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد کون کون سے کام  کیے جرمنی ترقیوں کی منزل  طے کرتے کرتے یہاں تک کیسے پہنچا   - جرمن صرف جرمنوں کا ھے یہ نعرہ یہ سوچ ہٹلر کی تھی  جو آج پھر لوگوں کی زبان  پر  آرھی ھے ۔ اس سوچ نے پہلے بھی دوسروں کے ساتھ جرمنوں کو بھی تباہ کیا تھا - اب بھی صرف تباہی لائے گی -  تاریخ بار بار اپنے آپ کو دھراتی ھے - انسان وہی غلطیاں بار بار کرتے ھے  ۔ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا  - واقعی ھی انسان کم فہم   بھی  ھے اور ظالم بھی  -
آگ بجھانے کی کوشش کی جا رھی ھے ۔ مگر چنگاڑی بھڑک رھی ھے  - اسے ایندھن نہ ملے تو اچھا ھے 

No comments:

Post a Comment