Wednesday, June 1, 2011

فراغ دلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






پریس کانفرنس ھو رھی  تھی مختلف سوالات کیے جا رھے تھے اتنے میں ایک صحافی نے محترم صدر صاحب سے سوال کیا اللہ نے آپ کو اتنا نوازا ھے
اتنا کچھ دیا ھے آپ اللہ کے راہ میں کیا دیتے ھیں


محترم صدر صاحب کے چہرے پہ ازلی مسکراہٹ سجی ھوئ  تھی
انھوں نے مسکراتے ھوئے کہا

میرے پاس اللہ کا دیا اور بندوں سے لیا ھوا بہت کچھ ھے
اور جو کچھ بھی ھے وہ سب اللہ سائیں کا ھی ھے
میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں مجھے حیرت ھے آپ نے مجھ سے یہ سوال کیا
میں تو اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رھتا ھوں
میں تو صبح آنکھ کھولتا ھوں تو شہادت کی آرزو لیے ھوئے کھولتا ھوں
اللہ مجھے جو بھی دیتا ھے میں اس کی راہ میں دے دیتا ھوں

صحافی نے حیرت سے پوچھا
سر آپ نے آج تک کیا کیا اللہ کی راہ میں دیا ھے

دیکھو بابا صدر صاحب نے ایسے مسکراتے ھوئے اسے دیکھا جیسے ایک بزرگ نادان بچے کو دیکھتا ھے
میری جتنی بھی ایک دن کی کمائ ھوتی ھے وہ میں جھولی میں بھر کر آسمان کی طرف اچھال دیتا ھوں
اللہ سائیں نے جو اپنے پاس رکھنا ھوتا ھے وہ رکھ لیتا ھے باقی میری طرف پھینک دیتا ھے



فراغ دلی کی ایسی اعلیٰ مثال ملنا مشکل ھے حاتم تائ بھی پانی پانی ھو رھا ھوگا ایسی دریا دلی پہ


نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں صدر کا نام نہیں لکھا کیا پتا یہ کسی کمیٹی کے صدر کی کہانی ھے یا کسی کمیشن کے صدر کی آپ اپنی مرضی سے اپنی پسندیدہ شخصیت کا نام  فٹ کر سکتے ھیں یہ آپ کی مرضی پہ ھے دیکھتے ھیں کس کس کی سوچ ملتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4 comments:

  1. مرضی کے ساتھ اور مرضی کے بغیر یہاں پر ایک ہی صدر فٹ ہوتا بلکہ در فٹ ہوتا ہے وہ صدرمہام چوہدری تاسف علی خرکاری

    ReplyDelete
  2. سلام اور ویلکم ڈاکٹر افتخار ۔۔۔۔۔۔۔۔


    آپ نے تو چوھدری بھی بنا دیا ۔۔۔۔ پہلے چوھدریوں کے دشمن تھے وہ اب دوست بن گئے ۔ تبصرہ کرنے کا شکریہ

    ReplyDelete
  3. یہ مضمون پڑھ کر مصر میں آنے والے موجودہ انقلاب سے پہلے کا ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے جب وہاں پر حسنی مبارک کی حکومت تھی۔
    ایک سفید پوش آدمی بازار گوشت خریدنے گیا، مہنگائی کی وجہ سے گوشت خریدنے کی تو حسرت ہی رہہ گئی مگر زبان پر قابو نا رکھ سکا، ہاتھ اُٹھا کر بد دعائیں دیتا ہوا بولا، جا اوئے حامد، اللہ تیرا بیڑا غرق کرے۔
    مچھلی کی دکان پر گیا مگر مچھلی بھی جیب کی سکت سے باہر تھی، تلملا کر پھر ہاتھ اُٹھائے اور کہا جا اوئے حامد تیرا خانہ خراب ہو۔
    وہاں سے نکل کر دال خریدنے کیلئے ایک دکان کے تھڑے پر چڑھا مگر دال کونسا قیمت میں کم تھی، وہ بھی گوشت اور مچھلی کے داموں کی برابری کر رہی تھی۔ غصے سے پھر ہاتھ اُٹھا کر بولا جا اوئے حامد، تیرا ستیاناس ہو۔
    ابھی دُکان کے تھڑے سے نیچے اُتر ہی رہا تھا کہ خفیہ والوں نے اُٹھا لیا، سینٹر میں جا کر خوب دُھلائی کی اور کونے میں بٹھا دیا۔ بڑا صاحب آیا تو اپنے ماتحت سے پوچھا، کیوں پکڑ لائے ہو اس مسکین کو؟
    ماتحت نے جواب دیام سر، اس آدمی کو ہمارے صدر صاحب کا نام بھی نہیں آتا۔

    ReplyDelete
  4. سلام حاجی صاحب


    ویلکم -------- شکریہ تبصرہ کرنے کا اور مزے کا واقعہ شئیر کرنے کے لیے ۔۔۔۔
    پاکستان میں تو سب دشمنوں کو نام بنام کوسا جاتا ھے -لگتا ھے دعاؤں کے ساتھ ساتھ بد دعاؤں میں بھی اثر نہیں رھا

    ReplyDelete