کسی نے کہا انقلاب آنے والا ھے کسی نے کہا اسے انقلاب کی چاپ سنائ دے رھی ھے کسی نے کہا حالات انقلاب والے ھیں اس لیے انقلاب کو آنے سے کوئ نہیں روک سکتا -
کسی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا کسی نے انکشاف کیا عوام جاگ گئے - نجانے عوام کون سی نیند سو رھے تھے خواب خرگوش کے مزے لے رھے تھے یا گھوڑے بیچ کر سو رھے تھے یا غفلت کی نیند سو رھے تھے
کسی نے کہا عوام میں شعور بیدار ھو گیا ھے انھیں اپنے حقوق کا علم ھو گیا ھے اب عوام کو کوئ بے وقوف نہیں بنا سکتا - اب عوام کی حکومت آئے گی - کسی نے کہا اب سونامی آنے والا ھے
آج تحریک انصاف کے جلسے میں عجیب منظر دیکھا ایسے لگ رھا تھا جیسے لوٹ سیل لگی ھو لوگ کرسیاں اٹھا کر بھاگ رھے ھیں ایسے لگ رھا تھا جیسے ھر کرسی صدارت کی کرسی ھو اور ھر کوئ اسے حاصل کرنا چاہ رھا ھو اس جلسے کی وڈیو دیکھ کر مجھے لگ رھا ھے عوام جاگ گئے ھیں انھیں اپنے حقوق کا بھی علم ھو چکا ھے اب سونامی کو آنے سے کوئ نہیں روک سکتا
مجھے اب اگلے جلسے کا انتظار ھے ایک لہر چل پڑی ھے اگلے جلسے پہ کس چیز کی لوٹ سیل لگتی ھے میری دوست " م" کہہ رھی ھے جس پارٹی میں جتنے لوٹے اور پانڈے ھوں اتنے لوٹے جو جلسے میں شامل حاظرین ھوں ان کو بانٹتنے چاییے - ان جلسے جلوسوں کا کوئ تو براہِ راست فائدہ عوام کہ بھی پہنچنا چائیے
روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے تنتالیس سال میں کچھ نہیں دے سکے انھیں چاہیے اپنا اگلا جلسہ چارہائیوں پہ کریں غریبوں کو سونے کے لیے چھت نہیں تو چارپائ مل جائے گی -
کسی نے کہا اگلے جلسے پہ جوتیاں چوری ھوں گی ۔ کسی نے کہا جوتیاں چلیں گی ۔ جوتیوں میں دال بٹ سکتی ھے تو جوتیاں چل بھی سکتیں ھیں
سب پارٹیوں کے لوگ اس واقعے پہ خوشی کا ظہار کر رھے ھیں - سب اپنی اپنی خیر منائیں - شاید عوام کا ایمان بھی اب یہ ھو گیا ھے ۔ جو جہاں ملے لوٹ لو پھر موقعہ ملے نہ ملے عوام سوئس بنک نہیں بھر سکتے اپنا گھر تو بھر ھی سکتے ھیں
لوگوں کا یہ عمل سیاست دانوں کے لیے لمحہ فکریہ ھے لوگوں کو بیان بازی میں کوئ دلچسپی نہیں - انھیں اس بات میں کوئ دلچسپی نہیں حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں انھیں اس بات میں بھی کوئ دلچسپی نہیں آمریت آتی ھے یا جمہوریت - وہ تبدیلی چاھتے ھیں ایسی تبدیلی تو سسٹم کو چینج کرے صرف چہرے نہ بدلیں غریب کے حالات بھی بدلیں -
عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر کام ان کی مرضی سے ہو اور وو جو چاہیں سو کریں انھیں کویی کچھ نہ کہے
ReplyDeleteسلام اجمل جی
ReplyDeleteپھر تو ساری قوم ایک جیسی ھے سیاستدان بھی چاھتے ھیں وہ کچھ بھی کریں کوئ ان کو کچھ نہ کہے ۔ فوج کی سوچ بھی الگ نہیں
انقلاب انقلاب۔۔ عوام عوام۔۔۔ تبدیلی تبدیلی۔۔۔ اُف یہ تو پچھلے کافی عرصے سے سُن سُن کر تنگ آہی گئے ہیں لیکن گزشتہ کچھ دِنوں سے اِک نیا لفظ سُننے کو مل رہا ہے: کُرسیاں، کُرسیاں، کُرسیان۔۔۔۔ :ڈ
ReplyDeleteسلام عادل بھیا ویلکم
ReplyDeleteپہلے سنا تھا سیاست سے تعلق رکھنے والی کچھ ھستیاں تسبیح پہ آیت کرسی کی جگہ کرسی کرسی کرتے ھیں ۔ پہلے قصور کی قصوری میتھی مشہور تھی اب یہ جلسہ اور یہ واقعہ ھمیشہ یاد رھے گا ۔ گجرات کے لوگ سنا تھا جوتی چور ھیں قصور کے کرسی چور