Sunday, May 10, 2015

زندگی کے موسم



وسیع اور پر شکوہ چار منزلہ بلڈنگ کوئ بھی گزرتے ہوئے سرسری نظر کے بعد کچھ دیر کھڑے ہو کر غور سے ضرور دیکھتا ہے خوبصورت لان قطار میں لگے پودے اور کیاریوں میں بہار دیکھاتے پھول چھوٹے بڑے فوارے کونے پر بنی مصنوعی آبشار جس کا پانی جل ترنگ بکھیر ے رکھتا ہے  داخلی دروازے کے بائیں  جانب پر وال ٹو وال شیشے کے دروازے اور کھڑکیوں  پر مشتمل کیفے ٹیریا   جس میں بیٹھ کر آپ باہر کے نظارے سے دل بہلا سکتے ہیں دائیں جانب لائیبریری ساتھ  وسیع اور روشن ٹی وی لاؤنج  اس میں بیٹھے باتیں کرتے ھوئے اور ہنستے ہوئے لوگ دوسری جانب ریلیکس روم جہاں آپ اپنا وقت خاموشی سے گزار سکتے ہیں سائیڈ پہ ایک پیانو دھرا ہے 
سامنے ایک لمبا کوریڈور دونوں جانب کمرے بنے ہیں چلتے ہوئے اپنا مطلوبہ نمبر نظر آیا ہلکے سے دستک دی دروازہ کھولا سامنے ایک اجلے رنگ کی بزرگ خاتون دراز تھی 
میں انھیں نہیں جانتی تھی میری دوست کی فیملی ملنے جا رھی تھی میں بھی ان کے ساتھ ملنے چلی گئ 
اتنے لوگوں کو دیکھ کر کھل اٹھی سب کا حال پوچھ رھی تھیں ۔ اپنے بچوں کی باتیں بتا رھی تھیں ۔ خود ہی سوال کرتی خود ہی جواب دینے لگتی 
باربار اپنے سب بچوں ذکر کر رھی تھیں
احمد نہیں آیا ۔۔۔۔۔ ہاں بیچارے کی طبیعیت ٹھیک نہیں تھی ایسی لیے نہیں آیا ہوگا
فوزیہ نے کتنے دن سے فون نہیں کیا ۔۔۔۔ اس کی بیٹی کے گھر میں مسلہ چل رھا تھا بس اسی کی پریشانی میں فون نہیں کیا ہوگا  اللہ اس کی پریشانیاں دور کرے 
قانتہ  ملنے کیسے آ سکتی ہے اسے تو خود جوڑوں کا درد ہے 
تھوڑی دیر بعد انھیں اپنے کسی بچے کا خیال آتا  - پھر خود  ہی اس کی مجبوری  بیان کرنے لگتیں 
ہم لوگ کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر اٹھ آئے 
یہ  یہاں کا اولڈ ہوم  ہے ۔ یہاں لوگ  اولڈ کہلانا پسند نہیں کرتے  ستر پچھتر برس کی عمر میں بھی خود کو جوان  مانتے ہیں  اس لیے  اس کا نام سینئر  ہاؤس رکھا گیا ہے 
بھاگتی ہوئ زندگی میں  سبھی مصروف ہیں کچھ لائف اسٹائل ایسا ہے سب اس کے عادی ہیں یہاں لوگ    یا  تو شادی نہیں کرتے یا بچوں کا جھنجٹ نہیں پالتے  - بچے ہوں بھی تو اٹھارہ برس  کی عمر کے بعد اپنی مرضی سے والدین کے ساتھ رہنا چائیں تو ٹھیک ہے ورنہ  جا سکتے ہیں والدین ذہنی طور پر  اس کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ بوڑھے ہونے پروہ جانتے ہیں ان کا ٹھکانااو لڈ ہومز ہیں ۔
سینئر ہاؤس میں گروپس میں بیٹھے  قہقہے لگاتے  لوگ دیکھے ٹی وی لاؤنج کیفے ٹیریا لائبریر ی میں بیٹھے لوگ  سب اسی معاشرے میں پلے بڑھے تھے  سب کی زبان ایک تھی   خوش گپیوں میں مصروف  مگر ایک پاکستانی ماں  یا پاکستانی باپ جس کی زندگی جس کے خواب  جس کی زندگی کا محور اس کا گھر اس کے بچے ہوتے ہیں اسے اکیلے  رہنا ایک عذاب سے کم نہیں  ۔  اور ایک پاکستانی عورت جو اس معاشرے میں پلی بڑھی نہیں جس کی زبان  الگ ہے  جو بڑھاپے میں بھی خود کو چادر میں لپیٹے رکھتی ہے اجنبی لوگوں میں اٹھنا بیٹھا گھومنا پھرنا ایک بڑےامتحان سے کم نہیں 
وہ بزرگ عورت   جس نے تیس پنتیس  برس بیوگی کے گزارے  اس میں زیادہ وقت ایک بیٹے کے پاس رہیں  - بیٹے کو ہارٹ اٹیک ہوا بہو بھی بیمار تھی کوئ اور بچہ رکھنے کو تیار نہیں تھا  سب کی اپنی اپنی مجبوریاں تھی  پھر آخری ٹھکانا  اولڈ ہوم ٹھہرا   آٹھ ماہ اولڈ ہوم رہنے کے بعد     مدر ڈے کے  ایک دن پہلے اپنے بچوں کی مجبوریاں کو جانتی تھیں  اس لیے خاموشی سے دنیا سے چلی گئیں 
آج   مدر ڈے ہے سینئرز ہاؤس میں لوگ بہت خوش ہیں  کسی کے بچے کا فون آرہا ہے کسی کا بچہ پوتا   یا نواسہ ان سے ملنے آرہا ہے کسی نے  پھول بھیجے ہیں  کتنے اچھے بچے ہیں  اتنی مصروف زندگی  میں  اتنی دور سے  ملنے آرہے ہیں  ۔ کتنی  خوشی کی بات ہے آج مدر ڈے ہے اور بچوں کو یاد ہے  کسی ماں کے لیے اتنی خوشی بھی  بہت ہے 
میں اپنے ماں باپ کو دیکھتی ہوں بچوں میں بیٹھا   چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہوتا ۔ اور تنہائ میں خاموش بیٹھا  ان کا اب کوئ اپنا  خواب نہیں  بچے ان کی حقیقت ہیں   
ماں باپ کے خواب  اور زندگی ان کے بچے ہوتے ہیں  مگر بچوں  کے خواب ان کے  اپنے حوالے سے ہوتے ہیں  - پردیس میں بچے اپنے خواب پورے کرنے آئے ہیں اور دیس میں بیٹھے ماں باپ ان کے خواب پورے ہونے کے لیے خدا کے سامنے  ہاتھ پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں   -
پاکستان میں پارک میں بیٹھے بوڑھے لوگوں کو دیکھا جو دن بھر پارک میں کسی درخت کے نیچے  سرجھکائے بیٹھے  رہتے ہیں  شاید سر اٹھا کر دیکھنے کے لیے  ان کے پاس کچھ نہیں  ہوتا ۔ 
ایک دن ٹی وی آن کیا  تو بچوں کے بارے میں  پروگرام چل رہا تھا  ۔ ایک این جی او  کے خاتون آئیں ہوئ تھی  وہ بتا رھی تھی وہ یتیم خانہ چلا رہی ہیں  رات کے اندھیرے میں کبھی لوگ ان کے دروازے پہ بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ جاتے ہیں  حکومت کو چاہیے بوڑھوں کے لیے  کچھ کرے  - 
لمبی عمر  رحمت ہے  کبھی زحمت بن جاتی ہے انسان کے اپنے لیے  ۔ کبھی اپنوں کے لیے  ۔ محبت کم ہو تو زندگی مشکل  بن جاتی ہے وسائل کم ہوں  تو محبت  مسائل میں گم ہو جاتی ہے 

زندگی چلتی رہتی ہے  ۔ زندگی میں  ہر موسم  آتا ہے سردی گرمی بہار خزاں مگر  ہر کسی کی برداشت الگ ہوتی ہے اور ہر جگہ موسم ایک سی شدت سے نہیں آتے کہیں سورج کی تپش اتنا نہیں جلاتی کہیں سردی جسم کو منجمد کر دیتی ہے کہیں بہار زمین کی گود پھولوں سے بھر دیتی ہے کہیں بہار میں زمین دو بوند پانی کو ترستی رھتی ہے کہیں خزاں میں  ویرانی چھا  جاتی ہے کہیں  خزاں بھی رنگوں سے بھری رھتی ہے     

No comments:

Post a Comment