Friday, July 15, 2011

ناکامی -----------------------

دنیا گلوبل ویلج بن چکی ھے دنیا کے کونے کی خبر پل بھر میں دنیا کے میڈیا کے سامنے آ جاتی ھے ۔
سفر آسان ھو گئے ھیں پہلے جس سفر میں عمر کٹ جاتی تھی اب ایک دن میں ھو جاتا ھے ایشیا کے لوگ یورپ  امریکہ کینیڈا آباد ھو چکے ھیں ان کے بزنس ھیں وہاں کی شہریت اختیار کر چکے ھیں تیسری نسل  جوان ھو چکی ھے اب وہی ان کا دیس ھے  عرب ممالک میں درجنوں فلائیٹ یورپی مما لک سے آتی جاتی ھیں

انگلینڈ چلے جائیں وہاں ایشیائ ممالک سے آئے ھوئے لاکھوں افراد آباد ھیں پورے کے پورے علاقے ان کے ھیں امن و اماں کا مسلہ نہیں ھوتا تعصب ھے مگر اس کا اظہار کھلے عام سامنے نہیں آتا جیسا پاکستان میں نظر آتا ھے سب شہریوں کو برابر حقوق حاصل ھیں ایک صوبے کا رہائیشی
دوسرے صوبے میں جاتا ھے تو اسے طعنہ نہیں دیا جاتا یہی حال پورے یورپ میں نظر آتا ھے

ایسے بیان بازی نہیں کی جاتی جیسے بیان پاکستان کے ٹی وی پہ آتے ھیں جنھیں بریکینگ نیوز کے طور پہ بار بار چلایا جاتا ھے جلتی پہ تیل چھڑکا جاتا ھے نمک پاشی کی جاتی ھے

لاکھوں لوگ جو خالی ھاتھ مغربی ممالک میں گئے تھے آج وہ رئیس ھیں سیاست میں حصہ لیتے ھیں جو کمایا ھے انھوں نے اپنی محنت سے کمایا ھے کوئ انھیں بھوکا ننگا ھونے کا طعنہ نہیں دیا حالانکہ وہ اس ملک کے شہری نہیں تھے پناہ گزیر تھے غلط ویزوں غلط طریقوں سے ملک میں آئے تھے آج وہی لوگ کروڑوں کا زرِ مبادلہ اپنے ممالک میں بھیج رھے ھیں

پاکستان میں ایک ملک کے رھنے والے ھیں  مگر ان کی پہنچان ایک نہیں کیا ھی اچھا ھو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانے کے لیے ویزا لازم کر دیا جائے اور حکومت کے طرف سےسب کو وہی حقوق حاصل ھوں جو مغربی ممالک یا امریکہ کے شہریوں کو حاصل ھیں ان کی جان و مال کی حفاظت ویسے ھی کی جائے جیسے اپنے مہمانوں کی جاتی ھے

جرمنی معاشی طور پہ ایک ترقی یافتہ ملک ھے یہ مثال ھے پاکستان کے لیے جب دیوار برلن گرائ گئ تو مشرقی جرمنی اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے  مغربی جرمنی سے بہت پیچھے تھا یہاں کے لوگوں نے مشرقی  جرمنی سے آنے والوں کو  اپنے گھروں  میں پناہ  دی ملازمت میں سب سے پہلا حق انھیں دیا گیا ھزاروں لوگ مغربی جرمنی کی طرف آئے یہی بس گئے بیس سال کا عرصہ گزرا ھے کہیں کوئ ذکر نہیں ھوتا کون مہاجر تھا کس نے کس کو پناہ دی اگر کوئ اپنے ملک میں روزگار کے لیے بہترین زندگی کے لیے نقل مکانی کرتا ھے تو یہ اس کا حق ھے اگر کوئ ان کی مدد کرتا ھے تو یہ اس کا فرض ھے

مغربی جرمنی کا سرمایہ وہاں لگایا گیا آج وہاں یونیورسٹیز بھی ھسپتال سڑکیں موٹر وے مغربی جرمنی کے معیار کی بن چکی ھیں نئ انڈسٹریز وہاں لگائ گئ ھیں تاکہ وہاں لوگ زیادہ آباد ھوں

آج کوئ مغربی اور مشرقی جرمنی کا لفظ استعمال کرتا جو بھی ھیں وہ جرمنی کے شہری ھیں کوئ حکومتی یا اپوزیشن کی پارٹی مہاجر کا لفظ یا اپنی قربانیوں کا ذکر نہیں کرتی وہ یہ ذکر نہیں کرتی اس نے اپنی قوم کے لیے  کیا کیا احسان کیے ملک کے ان غیر ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی کی کن بلندیوں پہ پہنچایا یہ ان کا احسان نہیں ان کا فرض تھا لوگوں نے انھیں منتخب ایسی لیے کیا تھا انھوں نے ووٹ ایسی لیے دیا تھا یہ ووٹ کا قرض تھا جو انھوں نے ادا کیا

اگر کسی ملک کی ترقی رک جاتی ھے ملک میں امن و اماں قائم نہیں رھتا تو یہ حکومت کی ناکامی ھے حکومت کی اپنی پالیسیوں پہ نظر ِ ثانی کرنے کی ضرورت ھے ترقی یافتہ ممالک پہ نظر ڈورائیں تو یہاں پیچھلی حکومت کی ناکامیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا اپنے پلان بنائے جاتے ھیں عوام سے وعدے کیے جاتے ھیں اگر وعدے پورے نہیں کیے جا سکتے تو اپنی نا کامی کا اعتراف کر کے حکومت سے اعلیحدگی اختئیار کر لی جاتی ھے ایسی  مثال پاکستان میں  نہیں ھے

کسی سیاسی شخصیت کو پوجا نہیں جاتا کسی کے نام سے جذباتی وابستگی کو ہتھیا ر بنا کر ووٹ نہیں وصول کیے جاتے نہ ھی کسی لیڈر کی اولاد کو ولی عہد کے طور پہ منتخب کیا جاتا ھے شاید اسی کا نام جمہوریت ھے پاکستان میں جمہوریت بہترین انتقام ھے شاید یہ جمہوریت سے انتقام ھے - اس انتقام کا نشانہ بے بس عوام بن رھے ھیں ۔ یہ تو ھمارے مہان سیاسی لیڈر بتا سکتے ھیں جو جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ھیں آمریت کے بعد جمہوریت نے عوام کو کیا دیا
کیا یہ پاکستان کے سب سیاسی لیڈرز کی ناکامی نہیں کہ وہ قوم کو ایک نہیں کر سکے - اگر ساری قوم ایک ھوگئ تو سیاست کس پہ کی جائے گی
ناکامی -----------------------

12 comments:

  1. بی بی ۔ صرف يورپ اور امريکہ ہی نہيں افريقہ اور مشرقِ بعيد ميں بھی لوگ محنت کا کھاتے ہيں اور مُلکی سطح پر بات کرتے ہيں ۔ ميرے ہمقطنوں کو يہ غلط فہمی ہے کہ سدا مُفت کا مال ملتا رہے گا کيونکہ ملتا رہا ہے ۔ يہاں ايسے لوگ بہت کم رہ گئے ہيں جو محنت کا کھاتے ہيں کيونکہ ہميں ہماترے گريٹ ليڈر نے 40 سال قبل يہ سکھايا تھا کہ مُفت کا کھاؤ ورنہ جلاؤ اور گھيراؤ ۔ نہ اُستاد کو اُستاد سمجھو اور نہ افسر کو افسر ۔ تقرير کا فن اور اداکاری ميں اُس کا کمال تھا

    ReplyDelete
  2. ان تعصبات کو جو پاکستان بننے سے کچھ پہلے ہندؤستان یعنی برصغیر جیسے کثیر التعداد معاشرے میں اپنی اپنی قومی اور مذھبی شناخت قائم رکھنے کے لئیے شاید کسی حد تک ناگزیر بھی تھے کہ تب کہ مہاراج بادشاہوں شہنشاہوں اور خود انگریزوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئیے کسی نہ کسی لہر کے ساتھ وابستہ رہنا ضروری تھا۔ کہ عوام اور وسائل کی ترقی نہیں تھی۔ اور زندہ رہنے کے لئیے ایسا شاید ضروری سمجھا جاسکتا ہے مگر پاکستان بننے کے فوری بعد یہ تعصبات جو بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے سے موجود تھے۔ یہ ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیونکہ سیاستدانوں میں اخلاقی جرائت اور سیاسی یعنی پولیٹیکل ول پاور نہیں کہ وہ اسے ختم کرتے ۔ بلکہ قاعد اعظم محمد علی جناح رحمتہ علیہ کے فوت ہونے کے فورا بعد اس تعصب کو سیاسی لحاظ سے زندہ رہنے کے لئیے ایک ہتیار کے طور پہ اپنایا گیا اور اسے سب سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں لیاقت علی خان ے اپنے گھٹیا سیاسی مفادات کے لئیے تعصب کو استعمال کیا۔

    سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئیے پاکستان میں، اسلحہ اور کثیر سرمایہ، خود حکمران اور حکومت کے لوگ تقسیم کرتے آئے ہیں۔ اور لسانی ، مسلکی، صوبائی، علاقائی، قبائیلی تعصب کو سائنسی بنیادوں پہ ہوا دی جاتی ہے۔

    حکومتی اداروں کے نزدیک یہ ایک باقاعدہ سائنس کا درجہ رکھتی ہے۔ یوں تقسیم کرو اور حکومت کرو اب ڈریکولا سیاہ ست دانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اب اس مشغلے سے کس کس گھر کا چراغ بجھ جائے ۔ اس سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ۔ کیونکہ خون میں گندھے خمیر کی روٹی کھانا ان کی سرشت میں شامل ہے۔ اور اس سرشت کے لوگوں کو اوتار ماننے والے بجائے خود عوام ہیں۔

    بندر کے ہاتھ میں ناریل آجائے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ جاننے کے لئیے دانشور ہونا ضروری نہیں۔

    ReplyDelete
  3. سلام اجمل جی


    کوئ دنیا کے کسی کونے پہ رھتا ھے وہ اپنی محنت کاکھاتا ھے - ھمارے سیاستدانوں کے علاوہ تارکین ِ وطن خالی ھاتھ ملک سے گئے تھے انھیں کوئ اردو یا پنجابی بولنے والے بھوکے ننگے ھونے کا طعنہ نہیں دیتا ۔
    کیا ھمارے ملک کے سیاسی بندر لیڈر کہلانے کی مستحق ھیں ؟؟؟

    ReplyDelete
  4. سلام جاوید


    میرا نہیں خیال پاکستان بننے سے پہلے اتنا تعصب تھا پاکستان بننے سے پہلے ھندو مسلم فسادات ھوئے تھے مگر صرف لسانی بنیاد پہ کسی کو کمتر سمجھنے کے واقعات میرے علم میں نہیں ھیں ۔ اچھی جاب اچھا مقام اسے ملتا تھا جو انگریزی جانتا تھا اس کی بنیاد تعلیم تھی جس میں مسلمان پیچھے تھے
    بریٹش دور ِ حکومت میں ان لوگوں کو نوازا گیا جنھوں نے ان کا ساتھ دیا پاکستان بننے کے بعد یہی ملک چوھدری جاگیر دار وڈیرے سردار حکومت پہ اپنا حق سمجھنے لگے عوام پہلے بھی دو وقت کی ڑوٹی کے پیچھے تھی اب بھی ھے
    پاکستان میں سیاست کی جاتی ھے کبھی مذھب پہ کبھی صوبائ تعصب کو ھوا دے کر کبھی لسانی بنیاد پہ کبھی کسی کو لڑا کر کبھی خود کو مظلوم ثابت کر کے ۔ بھارت میں ھندو سکھ فسادات ھوتے رھے ھیں فاصلے ابھی بھی دلوں میں ھیں مگر ان کو ایسے ھوا نہیں دی جاتی نہ ان کو بنیاد بنا کر حکومت حاصل کی جاتی ھے نا گاندھی نا اندرا گاندھی گھر گھر سے نکلتی ھے نا جیالے بھڑکیں مارتے ھیں اور نہ ھی اسلحے کی نمائش کی جاتی ھے
    کچھ بھی ھو جائے اگلے انتخابات پہ عوام نام کو ووٹ دیں گے کام کی اھمیت نہیں

    ReplyDelete
  5. افتخار اجمل صاحب اور جاوید گوندل صاحب جو تعصب کے خلاف وقت ضرورت بڑے لمبے چوڑے بیان اور تحاریر لکھتے ہیں ۔ یہی لوگ اس تعصب میں بڑھ چڑغھ کر حصہ کلیتے ہیں۔ یہی جاوید گوند صاحب پہلے کہیں اسی طرح کی باتیں لکھ چکے ہیں جس میں انہوں مہاجروں کو غربت کے طعنے دئیے۔ جس میں انہوں نے لیاقت علی خان کو متعصب وزیر اعظم کہا۔ وغیرہ وغیرہ۔ افتخار اجمل صاح بھی کم و بیش یہی کتے ہیں۔
    اب یہ سب لوگ اخلاقی پندو نصائح کے ساتھ آگئے۔
    یوں ایسی تحاریر کا کوئ خاص فائدہ ہوتا نہیں۔ جو قتل کرتا ہے وہی قتل کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ کیا ایسے قاتل کو شرمندہ کیا جا سکتا ہے۔
    بس ہمارے یہاں وہ سب کچھ اس لئے ہی نہیں ہو پاتا جو ہم دوسرے ممالک میں دیکھتے ہیں۔
    وعظ اور نصیحتیں بیہت مگر کوئ اپنے اندر جھانکنے کا تکلف نہیں کرتا۔ اس سے تکلیف ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور اپنے آپکو کوئ تکلیف نہیں پہنچاتا۔
    آپ نے کام کے بارے میں لکھا ہے۔
    مجھے یاد آیا، بلاگستان میں اب سے کچھ عرصے پہلے ایوارڈ دینے کی رسم تھی۔ بلاگستان میں سب سے بہترین ایوارڈ ڈفر کے حصے میں آیا جبکہ انہوں نے شاید پچھلے چھ مہینے سے نہ لکھنے کے برابر لکھا تھا۔
    کیا ایوارڈ کے لئے جو ووٹنگ ہوئ اس میں کسی نے دیگر بلاگرز کے کام پہ دھیان دیا۔
    اس پہ میں نے اشارتاً تذکرہ بھی کیا۔ رد عمل یہ تھا کہ میں ان لوگوں سے حسد کرتی ہوں۔ یوں سمجھ لیں کہ بلاگستان ایک چھوٹا سا پاکستان ہے بلاگستان کو سمجھ لیں پاکستان سمجھ میں آجائے گا۔
    آج بھی اگر ووٹنگ ہو تو مجھے یقین ہے کہ ڈفر کو ہی دوبارہ بہترین بلاگر کا ایوارڈ ملے گا۔
    جب یہاں پہ لوگ شخصیات اور لسان سے باہر نہیں دیکھ سکتے تو پاکستان میں کیسے دیکھ سکتے ہیں جسکی تعلیم شرح چالیس فی صد سے کم ہے۔ اور اس چالیس فی صد کی ایک بڑی تعداد نہ اخبار پڑھتی ہے نہ کتابیں۔

    ReplyDelete
  6. مرزا صاحب نشے میں تو نہیں لگ رہے تھے پھر ایسا بیان میڈیا کے سامنے دینے کا مقصد واضح ہے ۔ ایم کیو ایم کو دوبارہ حلیف بنانے کے لئے انگلی ٹیڑی تو کرنی پڑے گی ۔ مگر کیا کہنے جمہوریت کے !!!!!!!!!! اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی ۔ قوم کی آج الٹی لٹکی ہے ۔ بہترین شغل ہے بحث کا بازار گرم رکھنا ۔ گلی محلوں میں شد و مد سے جاری ہے ۔ شب برات کی فضیلت پر اتنا نہپیں لکھا گیا جتنا آتش بازی کے خلاف قلم اٹھایا گیا ۔ حالانکہ اس اقدام کی کوئی تعریف نہیں کرتا ۔ قوم بٹ چکی ہے فرقوں میں ، سیاسی جماعتوں میں ، صوبائی تعصبیت میں ۔ جھوٹ کا پلندہ ہیں سیاستدان ۔ ابھی تو میڈیا پر جادو کا زور چل رہا ہے ۔ جس دن بلاگستان پر پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں چلی گئی ۔ سحر صاحبہ نہ آپ ہوں گی اور نہ ہی ہم ۔ ہوں گے صرف نعرے آوے ہی آوے جاوے ہی جاوے ۔ اور پکے کی سیاسی کھچڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  7. سلام عنیقہ اور ویلکم


    ھمارے دلوں میں نفرت کی جڑیں بہت گہری ھو چکی ھیں جب انھیں رویوں کا ھمیں سامنا ھوتا ھے جو ھمیں دکھ ھوتا ھے ہماری نفرتیں ذات برادری پیشوں سے شروع ھوتی ھے فرقوں سے علاقائ لسانی سے صوبائ تعصب تک جاتی ھے
    میں اکثر سوچتی ھوں کیا ھمارے بزرگ بھی ایسے تھے ؟ کیا ان کے دلوں میں بھی اتنی نفرتیں تھیں ؟؟ اگر وہ سب بھی ایسے ھوتے تو کبھی پاکستان وجود میں نہیں آتا
    سیاست کے کھیل میں یہ گر کامیابی کی کنجی بن چکا ھے پہلے کام دیکھا کر اپنے آپ کو ملک کے لیے مخلص ثابت کر کے ووٹ حاصل کیے جاتے تھے اب اموشنیل بلیک میلنگ سے ووٹ حاصل کیے جاتے ھیں

    جہاں تک بلاگ پہ ووٹنگ کا تعلق ھے اس میں کبھی دلچسپی نہیں لی میں نے اس کے لیے اپنے بلاگ کا اندراج بھی نہیں کروایا تھا - عام لوگ سنجیدہ تحریرات کو اتنے شوق سے نہیں پڑھتے - زندگی میں دکھ اتنے زیادہ ہیں ٹی وی اخبارات ھمارے ارد گرد ھونے والے واقعات جب ان سے نظریں چرا کر لوگ نیٹ پہ آتے ھیں تو انھیں کچھ چینج چاھیے ھوتا ھے کچھ ہلا گلا چاھیے ھوتا ھے چاھے وہ سنجیدہ موضوعات کا مذاق اڑا کر ھی حاصل ھو
    ساٹھ فیصد آبادی پہ حکمران وہی جاگیردار مخدوم سردار  اور وڈیڑے ھی رھیں گے باقی چالیس فیصد پاکستان میں کیا تبدیلی لاتے دیکھتے ھیں

    ReplyDelete
  8. سلام محمودالحق ویلکم


    کیا مرزا صاحب آپ کو نشے میں نہیں لگ رھے تھے - کیا طاقت کے نشے سے بڑا کوئ نشہ ھے ؟؟ ھمارے سیاست دان طاقت کے نشے میں مست ھیں بڑے بڑے بول بولتے ھیں اور نشے میں انسان جو بھی کرتا ھے یا کہتا ھے اکثر غلط کرتا ھے اور کبھی دل کی بات زبان تک آجاتی ھے دلوں کی نفرتیں بھی سامنے آجاتی ھیں
    عوام جو الٹی لٹکی ھوئ ھے وہ اسی قابل ھے کس نے کہا شخصی پوجا کریں ھر گھر سے زندہ بھٹو بھی نکل رھا ھے اور میتیں بھی نکل رھی ھیں کس نے کہا ایک دفعہ کے آزمائے ھوئے کو بار بار آزماؤ ۔ حکمران کرپٹ ھیں تو دودھ دھی والے سے لے کر مل اونر تک سب ھی کرپٹ ھیں
    یہ آوے آوے جاوے جاوے کے نعرے عوام کو اپنے مسائل تک بھلا دیتے ھیں


    شب ِ برات کے بارے میں بھی لوگوں کی دو مختلف رائے ھیں

    ReplyDelete
  9. سعدیہ مانتے ہیں ہمارے مُلک اور یورپ کے ممالک کے نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اِس فرق کو ہی بار بار بتانے کا کیا فائدہ؟ بات یہ ہے کہ ہم اِس فرق کو کیسے ختم کر سکتے ہیں۔ میں اور آپ اپنا کردار کیسے ادا کرسکتے ہیں؟ ہم کیسے اِس نظام کو بہتر کر سکتے ہیں۔ ہمارے بس میں کیا ہے؟

    ReplyDelete
  10. سلام عادل بھیا


    ویلکم ۔۔ شکریہ تبصرہ کرنے کا ۔۔۔ مگر اتنے سوالات ۔۔۔۔۔۔ ھممممممممم
    ابھی تو ان سب کے جواب دینا ممکن نہیں اس پہ تو ایک الگ بلاگ لکھنا پڑے گا ۔ جلد ھی لکھنے کی کوشش کرونگی

    ReplyDelete
  11. وعلیکم السلام۔۔۔۔

    اتنی لمبی ھممممم؟ :پ۔ خیر آپکی تحریر کا انتظار رہے گا

    ReplyDelete
  12. تحریر آدھی لکھی ھوئ ھے دیکھیں کب مکمل ھوتی ھے سوچ رھی ھوں اس تحریر سے پہلے چودہ اگست کے حوالے سے کچھ لکھوں

    ReplyDelete