Sunday, February 1, 2015

غیرت

وہ لوگ دادی اماں کی وہیل چیئر  دھکیلتے  ھوئے جلدی جلدی قدم اٹھاتے  ھوئے جا رھے تھے جیسے کوئ ایمر جنسی ھوں ۔ چئیر پہ بیٹھا وجود چادر میں  لپٹا  ھوا تھا  ۔ دونوں نے مل کر اسے کار میں بیٹھایا اور وہیل  چئیر گاڑی میں رکھ دی ۔ گاڑی
تیزی سے سڑک پہ بھاگنے لگی
------------------------
پولیس کو کسی نے اطلاع دی شہر کے قریب جنگل میں  پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ کے قریب جھاڑیوں میں کسی کی لاش پڑی ہے ۔ پولیس نے چاروں جانب سے علاقے کو گھیر لیا ۔ کاروائ شروع ھوئ ۔ تلاش کرنے پہ ایک پرس ملا ۔ جس سے اس کا نام جاننے میں آسانی ھوئ ۔ پانچ کیلومیٹر کے فاصلے   پہ ایک چھوٹی سی نو آبادی کا ایڈریس تھا  - پولیس آفیسر ہیڈ کواٹر پہ رپورٹ کرنے لگا ۔ انھیں اب اس ایڈریس پہ جاتا تھا 
---------------------------------------
عارف صاحب  اور ان کی اہلیہ دم  بخود کھڑے تھے ان کے سامنے ان کی بیٹی  تھی انھیں اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرھا تھا  جو انھوں نے سنا -کیا وہ  واقعی   ان کی بیٹی نے کہا ہے ۔ ان کی معصوم بیٹی جس نے انیس برس  ان کی ہر  بات مانی  کبھی کسی فیصلے سے اختلاف نہیں کیا   کبھی کسی فیصلے پہ سوال جواب نہیں کیا  آج وہ ان کے فیصلے کے خلاف تن کر کھڑی  تھی ۔ اس میں اتنا بدلاؤ کب آیا اور وہ جان نہیں پائے ۔ عارف  صاحب  نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جیسے نظروں ہی نظروں میں کہا  دیکھا اپنی تربیت ۔۔۔ انیس برس تک باپ کی تربیت تھی  آج ان کی ہو گئ  ۔۔۔۔۔۔

وہ آن لائن ھوئ تو ایک لڑکے کی فرینڈ شپ ریکوئسٹ  تھی ۔ اس نے  اسے ایڈ کر لیا ۔ کچھ دن کے بعد ہا ئے ھیلو ھوئ  پھر بات ختم  - پھر ایک دن ایک فورم پہ مذھب  کے بارے میں بحث ھوئ  اس کے بعد  ان کی مختلف موضوعات پہ بات ھونے لگی  ۔ اور آہستہ آہستہ دوستی ھونے لگی دوستی محبت میں بدلنے لگی  وہ  قریب کے  شہر کا رھنے والا تھا ا کچھ ملاقاتیں ھوئیں   انھیں لگا  وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں ۔ گھر میں شادی کی بات چل  رھی تھی  ۔ اگر شادی کرنی ہے تو کسی اور سے کیوں  ۔ دونوں کا تعلق پاکستان سے ہے دونوں   نے فیصلہ کیا  وہ اپنے گھر والوں سے بات کریں گے  انھیں امید تھی ان کے گھر والوں کو ان کے اس فیصلے پہ کوئ اعتراض نہیں ھوگا  ۔ رباب بہت پیاری  تھی وقاص اچھی شکل و صورت  کا مالک تھا  اس کا کورس مکمل ھوتے ہی جاب ملے کا  امکان تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رباب نےجب  اپنے گھر والوں کو وقاص کے متعلق بتایا  تو ان کے ری ایکشن  اس کی توقع کے خلاف تھا ۔ وہ نہیں جانتی تھی  اس کے  والد  اس کے رشتے کی بات  پاکستان اس کی پھپھو کر گھر کر چکے ۔ اس کا کزن اس کے لیے   اجنبی  تھا پاکستان  گئے کافی برس ھو گئے تھے  وہ اس کے بارے میں  نہیں جانتی تھی ۔ اس کا خیال تھا  وہ اپنی ماں کو اپنی بات با آسانی سمجھا سکتی ہے ۔  باپ  سے بات کرنا تھوڑا مشکل تھا  - مگر وہ پر امید تھی 
-------------------------
وقاص  اپنے گھر والوں سے ملوانے لے گیا  سب سے مل کر اسے بہت خوشی ھوئ سب اس کے بارے میں جانتے تھے  وقاص کے بہن بھائ اس کے امیا بو   بہت خوش تھے ان کے بیٹے نے ایک پاکستانی لڑکی کو پسند کیا  ورنہ  انھیں ڈھرکا لگا رھتا تھا کہیں وہ کسی کالی گوری کو پکڑ کر نہ لے آئے   ۔ انھیں رباب بہت پسند آئ تھی سکارف میں لپٹی ھوئ معصوم سی  گڑیا جیسی لڑکی 
--------------------------------------------
عارف صاحب  کوئ بات کرنے اور سننے کو تیار نہیں تھے  ۔ ان کی اہلیہ  صدمے کی حالت میں تھی لوگوں سے کیا کہیں گی  ان کی بیٹی نے لڑکا خود پسند کیا ۔ وہ لوگوں کو ھزار باتیں کرتی تھیں  اپنی بیٹی کی معصومیت اور فرمابرادری کی  ہر کسی کے سامنے ذکر کرتی تھی  شکر ہے ان کی بیٹی  یہاں پہ رھنے والے اور پاکستانی لڑکیوں جیسی نہیں ہے   وہ اسکارف لیتی  ہے  ۔  بہت فرمابردار بیٹی ہے -انھیں اب اس بات کی فکر تھی  لوگ کیا کہیں گے  ۔ ان کی بیٹی کیا کہہ  رھی تھی  اور کیا چاہ رھی تھی  اس کی طرف ان کا دھیان نہیں جا رھا تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص کے گھر والے پورے یقین کے ساتھ آئے ان کے بیٹے میں کوئ کمی نہیں  رباب کے گھر والے انکار نہیں  کریں گے    مگر عارف صاحب کا  سرد رویہ انھیں مایوس کر رھا تھا  وہ کوئ بات سننے  اور سمجھنے پہ تیار نہیں تھے   وہ لوگ خاندان میں شادی کرتے ہیں   اور فیصلہ ماں باپ کرتے ہیں اور فیصلہ وہ کر چکے ہیں   بیکار میں بحث کرنے کا کوئ جواز نہیں بنتا   رباب کا رشتہ طے ہو چکا ہے 
-------------------------------------------------
وقاص اور رباب نے فیصلہ کیا وہ کورٹ میرج کر لیتے ہیں  پھر  اس کے والدین کے پاس  انکار کی کوئ گنجائش باقی نہیں‌ رھے گی   - باقائدہ رخصتی  روائیتی  انداز میں اس  کے  والدین  کریں گے   - اسے یقین تھا  جلد ہی اسے پاکستان لے جا کر اس کی شادی کر دی جائے گی  اور وہ      وہاں شادی کرنا نہیں چاہتی تھی  ۔ انھیں اپنا فیصلہ مناسب لگا 
----------------------------------------------------------
گھر میں اس کے  ماموں ممانی آئے تھے اسے بہت خوشی ھوئ   اس کی اپنے ماموں سے کافی دوستی تھی  - ھنسی مذاق کرتے ھوئے  بات اس کی شادی کی چل پڑی  - ابو کہنے لگے  بس اگلی چھٹیوں میں وہ پاکستان جا رھے ہیں  رباب کی شادی  کر کے آئیں گے  - اس نے انکار کر دیا وہ پاکستان نہیں جائے گی  نہ وہ  وہاں شادی کرنا چاہتی ہے  
تم اتنی خود سر ھو گی میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا 
زندگی میں نے گزارنی ھے کیا  میری رائے کی کوئ اہمیت نہیں 
تم ابھی بچی ہو  کیا ہم تمہارا برا چاہیں گے 
مگر شادی کے لیے ایک دوسرے کو جاننا چاہیے   محبت ھونی چائیے 
جب ھماری شادی ھوئ  ہم بھی ایک دوسرے کے بارے میں نہیں جانتے تھے  ۔   کیا ہے اتنے عرصے سے  ایک ساتھ رہ رہے ہیں  کیا ہم میں محبت نہیں 
پہلے سب کی ایسے شادی ھوتی تھی  اب وقت بدل گیا ہے 
وقت نہیں بدلا  تم بدل گئ ہو اپنے باپ سے زبان چلا رہی ہو  - کوئ لحاظ نہیں تمہیں 
میں زبان نہیں چلا رہی میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں 
گستاخ ۔ انھوں  نے  تھپڑ رسد کیا  ۔۔۔۔ کیا تم مجھے سمجھاؤ گی اپنے باپ کو  ۔ ہم بے عقل ہیں  ہمیں  کوئ سمجھ نہیں 
میں نے آپ کو بے عقل نہیں کہا 
بس بہت ہو گیا  ۔ ہوگا وہی جو میں کہہ رھا ہوں  
میں یہ شادی نہیں  کروں گی
شادی  وہیں  ھوگی جہاں ہم کہہ رھے ہیں ۔  اس  کے لیے ہمیں زبردستی  کرنی پڑی تو ہم زبردستی بھی کریں گے 
اگر آپ  زبردستی کریں گے تو ہم کورٹ میرج کرلیں گے
تھپڑ گھونسے کی بارش ھونے لگی  ان کی برداشت ختم ھو چکی تھی 
وہ کمزور کی لڑکی اپنے آپ کو بچانے کی نا کام کوشش کر رہی تھی 
اس کی امی اسے بد تمیز  اور گستاخ کہہ رھی تھی   اگر وہ فرمابردار ھوتی تو ماں باپ کی بات مانتی ۔ وہ کتنے بد قسمت ہیں جو ایسی بیٹی ملی 
عارف صاحب پہ جنون سوار ھو رھا تھا  ۔ اسکی گردن پہ ان کی گرفت سخت ہوتی جا رھی تھی 
-----------------------------------------------------------------

ڈور بیل ھوئ سامنے پولیس آفیسر کھڑا تھا ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کی  رپورٹ درج کروائ تھی وہ کل رات سے لاپتہ تھی 
پولیس نے وارنٹ گرفتاری نکال کر سامنے کر دئیے ۔ وہ انھیں گرفتار کرنے آئے تھے 
---------------------------------------
پولیس کو یہ کیس حل کرنے میں کوئ دشواری نہیں ھوئ  ۔ رباب کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے  کے بعد سب سے پہلے انھوں پہ  ان کی رہائش گاہ کے گرد  سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی ۔ وہیل چئیر پہ  شام کو چادر میں لپٹی ھوئ دادی ماں نہیں     رباب تھی  ۔ جس کی لاش جنگل  میں پیدل اور سائیکل کے راستے  کی سائڈ پہ پھینکی  گئ تھی صبح  ھوتے ھی  گزرنے والی کی نظر پڑ گئ تھی 
-----------------------------------------------------------
ملک بھر کے اخبارات  کی ھیڈ لائنز یہ تھی
اسے مرنا ھی تھا ۔ اس نے محبت کی تھی
ماں باپ نے اپنی بیٹی کو خود مار دیا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاھتی تھی 
باپ نے غیرت میں آکر بیٹی کو مار دیا  - یہ غیرت کیا ھے ۔ جس کی وجہ سے2015 میں  79 لڑکیوں  مار دیا گیا 
حکومت ایسے  قتل کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کر سکتی  ۔ یہ کیس تب سامنے آتے ہیں  جب قتل ھو چکا ھوتا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارف صاحب کی غیرت   کیا تھی ۔ ضد ؟انا ؟  اپنی بیٹی   کا حکم عدولی   کرنا ؟ 

No comments:

Post a Comment