Wednesday, September 23, 2009

میرے خواب بکھر گئے

میرے خواب بکھر گئے


میں حیرت سے اپنے گھر میں آئے رشتے داروں کو دیکھ رھی تھی صبح بابا نے کہا تھا اللہ نے مجھے ایک بہن دی ھے میں بہت خوش تھی میں نے اسے دیکھا معصوم سی گڑیا سو رھی تھی میں نے اسے آہستہ سا ھاتھ لگایا تو تھوڑی سی حرکت کی میں دیکھ کر مسکرائ یہ گڑیا ھے مگر ھلتی بھی روتی بھی ھے شام تک میں اپنی دوستوں کے ساتھ کھیلتی رھی بابا پھوپھوکو لے آئے تھے وہ پتا نہیں کیوں بار بار آنکھیں صاف کر رھیں تھیں مجھے بھی دعا کے لیے کہا ماں کے لیے دعا کرو میں کیا دعا کرتی مجھے بہن چاھیے تھی وہ مجھے مل گئ ابا پریشان تھے پھر ساتھ والی خالہ نے مجھے گلے لگا کر رونا شروع کر دیا وہ کیا کہہ رھی تھیں مجھے سمجھ نہیں آرھا تھا وہ کہہ رھی تھیں اللہ کی مرضی اب بچوں کا کیا ھوگا میں اماں کو دیکھ رھی تھی ان کے منہ پہ کسی نے چادر ڈال دی تھی مجھے عجیب لگا میں نے چادر ھٹا دی اماں کہتی تھی منہ پہ چادر لے کر نہ سویا کرو میں نے کہا اماں کو سانس کیسے آئے گا پھوپھو نے روتے ھوئے کہا اب وہ اللہ کے پاس چلی گئیں ھیں ان کو سانس لینے کی ضرورت نہیں میں نے ابا سے کہا بہن اللہ کے پاس سے آئ تو اماں اللہ کے پاس کیوں چلی گئ بہن کو کون سمبھالے گا سب رونے لگے پھر اگلے دن اماں کو قبرستان میں چھوڑ آئے ابا نے مٹی کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے بتایا یہ اماں کی قبر ھے اب وہ یہی رھیں گی اس مٹی میں اکیلی اندھیرے میں میں بار بار قبر کو دیکھ رھی تھی قبر سے مٹی ھٹا رھی تھی جیسے مٹی ھٹانے سے اماں ھنستی ھوئ نکل آئیں گی
اماں کے بنا گھر عجیب سا لگتا تھا پھوپھو اب ھمارے پاس رھتی تھی ایک بار وہ کسی کو بتا رھی تھیں
اگر یہاں کوئ ھسپتال ھوتا کوئ ڈاکٹر ھوتا تو اماں بچ جاتیں مگر اللہ کی مرضی - میں سوچنے لگی اگر اللہ نے انھیں اپنے پاس بلانا تھا تو ڈاکٹر کیسے ان کو روک سکتا تھا یہ ڈاکٹر کیا ھوتے ھیں بہت نیک انسان یا فرشتے جن کی بات اللہ بھی مانتا ھے میں نے پھوپھو سے پوچھا یہ ڈاکٹر کون ھوتے ھیں کیسے بنتے ھیں تو پھوپھو نے بتایا ڈاکٹر بننے کے لیے بہت پڑھنا پڑتا ھے بہت محنت کرنی پڑتی ھے تو میں نے سوچا میں ڈاکٹر بنوں گی پھر کسی کی ماں چھوٹے بچوں کو چھوڑ کہ اللہ کے پاس نہیں جائے گی
مین نے آج بہت دن کے بعد اپنا بستہ کھولا مجھے پڑھنا اچھا نہیں لگتا تھا اماں ھر وقت مجھے پڑھنے کے لیے کہتی تھی میں نے پڑھنا شروع کیا تو مجھے بہت مشکل لگ رھا تھا مگر آج میں پڑھ رھی تھی مجھے محنت کرنی ھے بہت زیادہ پڑھنا ھےمجھے ڈاکٹر بننا ھے پھوپھو نے چھوٹی کا نام پلوشے رکھا تھا وہ جب بھی روتی تھی لگتا تھا وہ اماں اماں کہہ رھی ھے میں آسمان کی طرف دیکھ کر اماں سے کہتی اماں پلوشے کو دیکھو تمہیں بلارھی ھے کیوں چھوڑ گئ ھمیں واپس آجاؤ مگر کہتے ھیں جو اللہ کے پاس ایک بار چلا جائے وہ واپس نہیں آتا میں نے پھر اماں کی قبر پہ جا کر وعدہ کیا میں ڈاکٹر بنوں گی بہت پڑھوں گی

میں امامہ جو پڑھائ سے بھاگتی تھی اب پڑھنے لگی جو اپنا بستہ چھپا دیا کرتی تھی کہیں اماں مجھے سبق یاد کرنے کا نہ کہہ دیں اب وہی بستہ میری زندگی تھا میں جو استانی کے مارنے سے بھی سبق یاد نہیں کرتی تھی اب کہنے سے پہلے ھی سبق یاد کرنی لگی میں وہی امامہ ھوں جیسے کھیلنا اچھا لگتا تھا پڑھتے ھوئے کبھی بھوک کبھی پیٹ میں درد ھو جاتا تھا اب پڑھتے ھوئے کھانا پینا بھولنے لگی
پھوپھو کہتی تھیں کتنا پڑھو گی میں نے کہا اتنا جتنا ایک ڈاکٹر کو پڑھنا چاھیے ڈاکٹر فرشتے کا دوسرا روپ ھوتے ھیں یہ مجھے ابا نے کہا تھا اور مجھے اب فرشتہ بننا ھے جو لوگوں کو زندگی دیتا ھے

میں نے دینیات کی کتاب میں پڑھا جب رسول ِ کریم کو پہلی وحی ھوئ تو حکم ھوا اقراء یعنی پڑھ - میں سوچنے لگی اللہ نے یہ کیوں نہیں کہا میری عبادت کرو صدقہ دو اور کام کرو صرف پڑھنے کا ھی کیوں کہا کیا پڑھنا اتنا اھم ھے پڑھنے سے انسان اللہ کو پہچان سکتا ھے اس کے قریب ھو سکتا ھے میں پہلے ھی اپنی پڑھائ پہ توجہ دیتی تھی اب پڑھائ میری زندگی بن گئ تھی قرآن کے بعد میں اپنی کتابوں کو عزت دینے لگی یہی وہ کتابیں تھی جن کو پڑھ کر انسان عالم بنتا ھے دنیا کو جانتا تھا اس کائنات کو سمجھتا ھے

پلوشے نے ایک بار مجھ سے پوچھا ماں کیسی ھوتی ھے میں نے کہا پھوپھو جیسی ھوتی ھے وہ بھی اماں کی طرح ھمارا خیال رکھتی ھیں وہ بھی ھم سے پیار کرتی ھیں اس نے مجھ سے پوچھا اماں تمہں کتنا پیار کرتی تھی تو میری آنکھوں میں آنسو آنے لگے مگر میں پلوشے کے سامنے نہیں روتی تھی
میں نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا آہستہ سے کہا اماں مجھ سے اتنا پیار کرتی تھی جتنا میں تم سے پیار کرتی ھوں میں نے ایک بار پھر عہد کیا میں ڈاکٹر بنوں گی میں نے ابا سے کہا ابا میں ڈاکٹو بنوں گی ابا نے کہا یہاں کوئ اپنی بیٹیوں کو اتنا نہیں پڑھاتا میں نے مضبوط لہجے میں کہا نہیں بابا میں نے ڈاکٹر بننا ھے پھر کوئ پلوشے کسی سے یہ نہیں پوچھے گی کہ ماں کسی ھوتی ھے اب کسی کی ماں بے موت نہیں مرے گی بابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے انھوں نے خاموشی سے میرے سر پہ ھاتھ رکھا اور بنا کچھ کہے چلے گئے میں اب میٹرک میں تھی میرے رشتے آرھے تھے مگر ابا ٹال رھے تھے میں جانتی تھی ابا مجھے پڑھانا چاھتے ھیں مگر برادری کے سامنے کچھ نہیں کہتے میں نے آٹھویں کے بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کیا تھا ابا نے مجھ سے کہا تھا اگر میں نے میٹرک میں بھی ٹاپ کیا تو مجھے کالج میں داخلہ دلادیں گے چاھے خاندان والے کچھ بھی کہتے رھیں

عید آنے والی تھی ھم شہر خریداری کرنے گئے پھوپھو اور پلوشے کپڑے دیکھ رھی تھیں میرا سارا دھیان پیچھلی طرف کتابوں والی دکان پہ تھا ابا نے کہا تم کیوں کوئ کپڑے نہیں دیکھ رھی میں نے آہستہ سے کہا ابا مجھے کتابیں لے دو کپڑے تو میرے پاس پہلے بھی بہت ھیں اتنی کتابیں ھمارے گاؤں کی کسی دکان پہ نہیں ابا ھنس پڑے پگلی کتابیں بھی لے دیتا ھوں پہلے عید کے لیے کپڑے لے لو میں نے جلدی سے ایک سو ٹ پسند کیا اور کتابوں والی دکان پہ بھاگ گئ وھاں اخبار کے پہلے صفحے پہ خبر تھی طالبان نے لڑکیوں کے ایک اور اسکول کو جلا دیا میں پڑھ کر پریشان ھو گئ یہ کون سا اسلام ھے اسلام میں تو پڑھنے کا حکم ھے وہ عورت ھو یا مرد اسکولوں کے بنانے پہ کتنا پیسہ لگتا ھے کتنے اسکول جل رھے ھیں آخر یہ سب کیوں ھو رھا ھے یہ سب کون کر رھا ھے اسلام تو چودہ سو سال سے ھے یہ کونسا نیا اسلام ھے جو تعلیم کو گناہ سجھتا ھے حضرت عائشہ تو سب کو درس دیا کرتی تھیں رسول ِ کریم کی زندگی میں ھی عورتیں جنگ میں حصہ بھی لیتی تھیں تلوار بازی گھڑسواری وہ گھر میں بند ھو کر نہیں سیکھتی تھیں میدان ِ جنگ میں مردوں کی مرھم پٹی کرتی تھیں جو ان کے لیے بالکل نا محرم ھوتے تھے ان کو پانی پلاتی تھیں گھر میں قید نہیں کی جاتی تھیں اب ایسا کیوں کیا جا رھا ھے میرے دل میں ھزار سوال تھے مگر جواب کسی کے پاس نہیں تھا

ایک دن مغرب کے وقت ھم نماز پڑھ کے فارغ ھوئے میں اور پھوپھو کچن رات کا کھانا بنا رھے تھے پلوشے کھیل رھی تھی ایک زور دار دھماکہ ھوا ھم سب خوف ذدہ ھو گئے میں پھوپھو کے گلے لگ گئ اور پلوشے میری ٹانگوں کے ساتھ چپک گئ اتنا زوردار دھماکہ پھوپھو زیرِلب دعائیں دھرانے لگی گلی میں شور تھا لوگ بھاگ رھے تھے سب مرد دیکھنے جا رھے تھے دھماکہ کہاں ھوا ھے پھر کسی نے بھاگتے ھوئے کہا لڑکیوں کے اسکول کو کسی نے دھماکے سے اڑا دیا پھر مجھے ھوش نہیں رھا مجھے یاد ھے میں بھاگ رھی تھی میرے سر پہ ڈوپٹہ تھا یا نہیں مجھے ھوش نہیں میں نے اسکول کی جگہ ملبے کا ڈھیر دیکھا دھواں‌اٹھ رھا تھا اینٹیں پتھر بکھرے ھوئے تھے ایسے لگ رھا تھا میرے خواَب بکھرے ھوئے ھیں اسکول نہیں جل رھا پورے گاؤں کا مستقبل جل رھا ھے میں دیوانہ وار رو رھی تھی اتنا تو اماں کے مرنے پہ نہیں روئ تھی آج لگ رھا تھا جیسے میری نہیں مجھ جیسی بہت سی لڑکیوں کی مائیں بنا علاج کے مر گئیں ھیں ابا نے میرا ھاتھ کھینچا تم یہاں کیا کر رھی ھو یہاں سب مرد ھیں گھر جاؤ میں ان کے گلے لگ گئ میں نے روتے ھوئے ان سے کہا
بابا اب گاؤں‌ کوئ ہسپتال نہیں بنے گا کوئ ڈاکٹر نہیں بن سکے گا اب کئ امامہ رات کو اٹھ کے اپنی ماؤں کو یاد کیا کریں گی کئ پلوشے لوگوں سے پوچھا کریں گی ماں کیسی ھوتی ھیں دنیا میں ھم دھشت گرد کے نام سے جانے جائیں گے لوگ ھمیں انتہا پسند کہیں گے جو اپنی عورتوں کو کسی پرندے کی طرح پنجرے میں قید کر کے رکھتے ھیں اب عیسائ فخر سے بیان دیں گے اسلام مساوات کا مذھب نہیں اسلام امن کا درس نہیں دیتا زبردستی کا درس دیا ھے اب بہت سے وہ لوگ جو اسلام کے قریب آرھے تھے اسلام سے دور ھو جائیں گے نفرت کرنے لگیں گے بہت سے لوگ اپنا پیسہ غیر ممالک میں ٹرانسفر کر دیں گے کہ یہاں امن ممکن نہیں
میرے ھونٹوں پہ بہت سے سوال تھے مگر جواب کون دیتا سب میری طرح بے بس تھے میرے سامنے میرے خواب جل رھے تھے اور میں انھیں جلتا ھوا دیکھ رھی تھی آپ میری جگہ ھوتے تو کیا کرتے ؟؟

No comments:

Post a Comment