Monday, December 21, 2009

کیا یہ میرا خواب تھا ؟؟

آج ایک نئ زرعی یونیورسٹی کا افتتاح کرنے وزیرِ اعظم تشریف لا رھے تھے سب کے چہرے خوشی سے دمک رھے تھے وزیرِاعظم سادہ شلوار قمیض زیبِ تن کیا ھوا تھا کسی نے ان سے پوچھا پہلے وزیرِاعظم زیادہ ترتھری سوٹ پہنتے تھے تو انھوں نے مسکرا کر کہا شلوار قمیض پاکستان کا قومی لباس ھے اور مجھے اس لباس سے اچھا کوئ لباس نہیں لگتا مجھے اپنے پاکستانی ھونے پہ فخر ھے چھ مہینوں میں یہ چوتھی زرعی یونیورسٹی تھی جس کا افتتاح ھورھا تھا زریرِاعظم فرما رھے تھے پاکستان ایک زرعی ملک ھے یہ بات ھمارے لیے قابل ِ شرم ھے کہ ایک زرعی ملک کے رھنے والوں کو دو وقت کا کھانا نہیں مل رھا یہ ٹھیک ھے اب حالات پہلے جیسے خراب نہیں ابھی زراعت کے میدان میں ھمیں بہت تحقیق کی ضرورت ھے یہ بہت ھی خوش آئند بات ھے غیر ممالک میں بہت سے پاکستان جو اس میدان میں کام کر سکتے ھیں وہ ملک واپس آئے اور ملک کی خدمت کر رھے ھیں

کھانے میں صرف دو کھانے اور سادہ پانی تھا ایک اخباری رپورٹر نے کہا ھم سمجھے تھے وزیرِاعظم کے ساتھ کھانا بہت پر تکلف ھوگا تو انھوں نے مسکراتے ھوئے کہا قومی خزانہ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا وہ بہت کم بات کر رھے تھے زیادہ لوگوں کو سن رھے تھے ان کی رائے جاننا چاہ رھے تھے وہ اپنی چھوٹی سی کار میں آئے تھے

یہ انقلاب اس وقت آیا جب ملک میں ذخیرہ اندوزی رشوت بے ایمانی قومی خزانے کی لوٹ مار دھشت گردی بڑھ گئ تھی تو عدالت نے انقلابی فیصلے کیے ملکی خزانے کو لوٹنے والوں ذخیرہ اندوزوں کی سخت سزائیں دیں جب ایک روٹی چوری کرنے والے کو سزا ھو سکتی ھے تو بجلی چوری کرنے والوں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ھے چوری چاھے کسی چیز کی بھی ھو چوری ھوتی ھے ملک کے بہت سے نامی گرامی لوگوں کو عمر قید اور قید با مشقت کی سزائیں ھوئیں قومی خزانی لوٹنے والوں کے ھاتھ کاٹے گئے غلط پالیسی بنانے والوں سابق حکمرانوں اور ذخیرہ اندوزوں اور رشوت لینے والوں کو سرِ عام کوڑے مارے گئے اس کے بعد کوئ بھی عام آدمی غلط کام کرنے سے پہلے سوچنے لگا اگر اتنے بڑے لوگوں کو سزا ھو سکتی ھے تو ھمیں کون معاف کرے گا صدر صاحب نے فارم ھاؤس کلچر ختم کیا تمام زمینیں غریب کسانوں میں تقسیم کی آٹھویں تک تعلیم لازمی قرار دی اس کے بعد جتنے بھی ذھین طالب علم ھیں اس کی تعلیم کا خرچہ حکومت برداشت کرے گی سارے ملک میں ایک تعلیمی نظام لازمی قرار دیا ایک وزیر ھو یا ایک غریب مزدور کا بیٹا اسے ترقی کے ایک سے مواقع ملنے چاھیے – چھوٹی صنعتوں کو فروغ کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے غریب مزدوروں اور کاریگروں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا محنت کش کسی بھی ملک کے لیے ریڈھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتے ھیں

چند سالوں میں ملک کے حالات تیزی سے بدلے تھے میں نے اپنے کمرے سے شاہ رخ اور بریڈ پٹ کی تصویریں اتار کر اپنے وزیرِ اعظم اور صدر کی تصاویر لگا دیں ھمارے اصل ھیرو تو یہی ھیں ایک دم میری آنکھ کھولی ٹی وی خبر آرھی تھی پشارو میں دھماکہ درجنوں زِخمی اور بہت سے لوگ مارے گئے نیچے بریکینگ نیوز چل رھی تھیں ٹرین پٹری سے اتر گئ – ایک خاندان کے پانچ لوگوں نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی ڈاکٹروں کی لاپرواھی سے تین سال کی بچی اپنی زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھی میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں کیا یہ خواب ھے یا حقیقت — اگر حقیقت ھے تو بہت خوفناک حقیقت ھے —- کیا وہ میرا خواب تھا ؟ کیا وہ ھمیشہ خواب رھے گا — کیا وہ کبھی حقیقت بن سکے گا ؟؟ یہ میرا ھی نہیں سولہ کروڑ عوام کا سوال ھے

No comments:

Post a Comment