Wednesday, May 18, 2011

ایک دفعہ کا ذکر ھے



ایک دفعہ کا زکر ھے ایک چھوٹی سی ریاست تھی جسے اللہ نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا تھا لوگ غریب اور محنت کش تھے روکھی سوکھی کھا کر خوش رھتے تھے جس حال میں بھی تھے اپنے حال مین مست تھے ریاست کا بادشاہ جو کہتا اس پہ آنکھیں بند کر یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے پھر خدا کا کرنا یہ ھوا بادشاہ فوت ھو گیا
اب مسلہ تھا ریاست کون چلائے گا پھر ان میں سے ایک طاقت ور آدمی اٹھا اس نے کہا وہ سب کی حفاظت کر سکتا ھے سب نے شکر کیا کوئ تو آیا ان کی حفاظت کرنے کے لیے — وہ جو کہتا وہ اپنی عادت کے مطابق یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے انھیں دو وقت کی روٹی مل رھی تھی دن ھفتوں میں بدلے ھفتے مہینوں میں اور پھر کئ سال گزر گئے پھر پتا چلا وہ محافظ سارا شاھی خزانہ لے کر بھاگ گیا ھے
مسلہ پھر کھڑا ھوا اب کون ریاست سمبھالے گا اب تک تو شاھی خاندان حکومت کرتا آیا ھے عوام اپنے آپ کو حکومت کے قابل نہیں سمجھتے تھے رعایا کو صرف دو وقت کی روٹی چاھیے ھوتی تھی سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رھے تھے پھر سب نے مل کر فیصلہ کیا جو بھی صبح سویرے ریاست کے دارلخلافہ میں داخل ھوگا اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا
سارے شہر کی آنکھیں شہر کے دروازے بھی لگی ھوئیں تھیں صبح دیکھا تو گدھوں کا غول شہر میں داخل ھو رھا ھے سب لوگ پریشان ھو گئے اب کیا کریں مگر وہ فیصلہ کر چکے تھے ابھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا
گدھے گھاس کھا کر اپنے حال میں مست رھتے وہ عوام کی زبان اور مسائل نہیں سمجھ سکتے تھے عوام ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے ریاست میں کافی گھاس تھی سب بندر بانٹ میں لگے رھتے کس کی کتنی گھاس ھے کون کتنی گھاس کھائے گا عوام کی روٹی کی کون فکر کرتے عوام کی حفاظت کون کرتا قانون کون بناتا کون حفاظت کرتا ریاست مین بد حالی پھیل رھی تھی عوام قانون خود بناتے تھے خود ھی فیصلہ کرتے تھے سر ِ عام سزائیں دی جانے لگی مگر حکمران اپنے حال میں مست تھے ایسے میں ریاست سے باھر کے گدھوں نے بھی ریاست میں‌دخل اندازی شروع کر دی
دوسری ریاست کے لوگ حیران تھے انھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران کیوں بنایا ھوا ھے پھر ریاست میں الیکشن ھوئے رعایا نے پھر گدھوں کو منتخب کیا دو وقت کی روٹی کو زندگی کا مقصد سمجھنے والے عوام کچھ سمجھتے نہیں تھے
پھر ساری دنیا میں مشہور ھو گیا عوام بھی گدھے ھیں اگر گدھے نہ ھوتے تو گدھوں کو کیسے منتخب کرتے ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد انھیں سمجھ جانا چاھئیے تھا گدھے گدھے ھیں انھیں ان کے مسائل کا کوئ ادراک نہیں وہ اپنے حکمران گدھوں سے دن رات دولتیاں کھاتے چیخ و پکار کرتے خود کشیاں کرتے اپنے بچوں کو مارتے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اللہ سے گلے کرتے اپنے مسائل کے لیے پھر ان کی طرف دیکھتے جواب میں دولتیاں کھاتے تھے پھر مگر اس قوم کو ساری دنیا نے گدھے مان لیا ان کے مسائل پہ کوئ غور نہیں کرتا تھا پھر ان کا کیا وھا اللہ جانے
ھو سکتا ھے جب اس ریاست کی گھاس ختم ھوگئ ھو تو گدھوں نے اس ریاست کو چھوڑ دیا ھو کیونکہ گدھوں کو گھاس سے مطلب ھو زمین سے محبت انھیں کہاں ھوتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سبق —– اس کہانی سے یہ سبق ملتا ھے گدھے کبھی انسان نہیں بنتے چاھے انھیں حکمران بنا دیا جائے
نمبر دو ۔۔۔۔ اگر انسان گدھے بن جائیں تو انھیں عقل دینا بہت مشکل ھوتا ھے انھیں پھر ھر جگہ سے دولتیاں ھی ملتی ھیں
نوٹ —— یہ صرف ایک کہانی ھے اگر حالات واقعات آپ کے اردگرد کے حالات سے ملتے ھوں تو یہ مماثلت اتفاقیہ ھوگی

No comments:

Post a Comment