Sunday, October 2, 2011

گدھوں کی میٹنگ


یہ کائنات بہت بڑی ھے کر ملک ھر بستی کی اپنی کہانی ھے ایک کہانی مجھے آج سب کو سنانی ھے یہ صرف ایک کہانی ھے اگر آپ کو یہ اپنے آس پاس کی کہانی لگے تو بندی کچھ نہیں کہہ سکتی جو بھی مماثلت ھوگی وہ محض‌ اتفاقیہ بھی ھو سکتی ھے



کہتے ھیں ایک بستی میں گدھوں کا راج تھا بڑی خوبصورت بستی تھی ھر طرف ھریالی ھی ھریالی تھی مگر گدھوں کی غلط حکمت علمی کی وجہ سے حالت بگڑ رھے تھے گدھوں کو کھانے کا تو پتا تھا مگر اگانے کی فکر نہیں تھی کھیت کے کھیت اجڑ رھے تھے مگر انھیں کوئ فکر نہیں تھی وہ آس پڑوس کی بستیوں سے مانگ کر اپنی ضروریات پوری کر لیتے تھے بستی کے عام گدھے بھوکوں مر رھے تھے مگر حکمران گدھے اپنے حال میں اور اپنی کھال میں مست تھے حکمرانوں کے اس روئیے کو دیکھ کر دشمنوں نے سازشیں شروع کر دیں جب کسی نے ان پہ توجہ نہیں دی تو وہ بستی میں گھس آئے اپنی من مانی کرنے لگے نا ان ملک دشمن عناصر کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئ نا انھیں پکڑنے اور سزا دینے کے لیے کچھ کیا گیا

حالات بگڑنے لگے طاقتور بستی والوں نے انھیں دھمکی دی ان کے مطالبات مانے جائیں ورنہ ان کا چارا بند کر دیا جائے گا کسی بھی طرح کی کوئ امداد نہیں کی جائے گی  وہ سب جو اپنے حال میں مست تھے جنھیں پیٹ بھر کے کھانے کو مل رھا تھا یہ دھمکی سنتے ھی بلبلا اٹھے

سردار گدھے نے سب سردار گدھوں کو ایک میٹنگ میں بلایا تاکہ مل کر فیصلہ کیا جائے ان حالات میں کیا کیا جانا چاہیے -- چاہیے تو یہ تھا کوئ لائحہ عمل طے کیا جاتاتھا کوئ ٹھوس تجویزات ھوتی جن پر غوروفکر کیا جاتا اس کے بجائے اس پہ زیادہ توجہ دی گی کھانے کا مینو کیا ھو گا ھر طرح کی گھاس کہاں کہاں سے منگوائ جائے کون کون سا مشروب پیش کیا جائے گا مرکزی اسٹیج پر کون بیٹھے گا کس کو داھنے طرف جگہ دینی ھے کسی کو بائیں طرف بیٹھانا ھے آنے والے شرکاء کو بھی اس بات کی زیادہ فکر تھی کون سی ٹائ لگائ جائے کون سا سوٹ پہنا جائے گا کس کی کس طرح ڈھکے چھپے انداز میں طنز و تحقیر کرنی ھے سب محب الوطن گدھے یہ سوچ کر آئے تھے کون سا بیان دینا ھے جو بریکنگ نیوز بن سکے کوئ ایسا بیان جس سے میڈیا میں اور عام گدھوں میں بئے جا بئے جا ھو جائے عام گدھوں کی دکھتی رگ کو کیسے چھڑا جائے ان کو جذباتی کر کے اپنی سیٹیں پکی کی جائیں

سب میٹنگ میں ایک دوسرے ایسے مل رھے تھے جیسے عید میں یا کسی ٹی پارٹی میں آئے ھوئے ھیں ان کے لیے یہ ایک پارٹی ھی تھی انھیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں تھا وہ جب بھی صبح اٹھتے اپنی کھڑکی سے باھر دیکھتے تو انھیں اپنے محل کی بلند و بالا محفوظ دیواریں نظر آتیں درجنوں محافظ نظر آتے ھرے بھرے دالان نظر آتے تو وہ کیسے محسوس کر سکتے تھے عام گدھے کس بے یقینی اور بدامنی میں زندگی بسر کر رھے ھیں وہ بیرون ِ ملک اپنے بچے اور اثاثے محفوظ کر چکے تھے



ایک طویل میٹنگ ھوئ جس میں ھر کوئ اپنی ھانک رھا تھا کسی کو اپنی عقل و دانش کی دھاک بیٹھانے کی جلدی تھی کسی کو اپنی طاقت کا نشہ ۔ کسی نے بھی تلخ حقائق کافکر و تدبر سے حل پیش نہیں کیا حکمران گدھوں کی نظر میں یہ میٹنگ ان کی عظیم قیادت کی کامیابی کی دلیل تھی میٹنگ کسی بھی نتیجے پہ پہنچے بغیر ختم ھوگئ مگر سب شرکاء خوش تھے کسی کا خیال تھا اس کا بیان اتنا زبردست ھے جس کے بنا پر اسے پر خلوص قائد کے طور پر مان لیا جائے گا کسی نے مسقبل کے بارے میں اچھے بیان دئیے تھے جس کی بنا پر اسے یقین تھا ائندہ ووٹ اسے ھی ملیں گے حکمران پارٹی خوش تھی وہ اپنی مدت پوری کر لے گی اور آئندہ بھی وہ عام گدھوں کا مذید گدھا بنا سکے گی وہ اس خوشی میں دو باتیں بھول گئے کہ ان کی ناک میں نکیل ڈلی ھوئ ھے اور نکیل ڈالنے والا انھیں کبھی بھی اپنی مرضی سے کہیں بھی ہانک سکتا ھے سب گدھوں نے مل کر اس کا حل نہیں سوچا انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا وہ امداد بند کرنے کی دھمکیوں سے کیسے جان چھڑا سکتے ھیں کیسے اپنے کھیتوں کر ھرا بھرا کر سکتے کیسے اپنی وہ بے جان دولت جس میں ان کی جان تھی جو دشمن بستیوں میں بےکار پڑی تھی اسے اپنی بستی کے مسائل حل کر سکتے ھیں اگر اتنی عقل ھوتی تو نا ان کے ناک میں نکیل ھوتی نہ وہ گدھے کہلاتے اور ان کو اپنا سردار بنانے والے اور بھی گدھے تھے اگر گدھے نہ ھوتے تو ان کی آنے والی نسلوں کو بھی اپنا سردار تسلیم نہ کر لیتے

9 comments:

  1. خطرہ ہے کہ کہیں چار ٹانگوں والے گدھے پڑھ کر برا نہ مان جائیں ،کہ ان کو کس سے تشبیہ دی گئی ہے

    ReplyDelete
  2. سلام اور ویلکم علی ----

    چار ٹانگوں والے گدھے بے زبان ھیں نرا نہیں مناتے کچھ نہیں بولتے دنیا انھیں بدنام کرتی ھے کچھ نہیں کہہ سکتے - جو ظلم خاموشی سے سہتا ھے وہ گدھا کہلاتا ھے عوام اس لیے گدھے کہلاتے ھیں ۔ اور خواص عقل استعمال نہیں کرتے اس لیے گدھے کہلاتے ھیں ۔۔۔۔ تبصرہ کرنے کا شکریہ



    سلام جاوید اور ویلکم


    حقیقی گدھوں سے معذرت ۔۔ بس کیا کریں بد سے بد نام برا

    ReplyDelete
  3. عام گدھوں کی دکھتی رگ کو کیسے چھڑا جائے ان کو جذباتی کر کے اپنی سیٹیں پکی کی جائیں





    کاش صرف یہ ایک لائن ہی سمجھ لیں ہم لوگ

    ReplyDelete
  4. salam .... shukriya bohat bohat

    ReplyDelete
  5. Aap ne koi Book wagaira bhi Likhi hai?

    ReplyDelete
  6. good lekin hamari awam ko is time gadon se bi batar kar diya h pakistaniyo samjo plzzzzzzzzzzz
    farah naaz

    ReplyDelete
  7. مسئلہ یہ ہے کے گدھے گدھے ہی رہتے ہیں
    چاہے وہ حکمران گدھے ہوں یا عوام گدھے

    ReplyDelete