Thursday, May 2, 2013

مزدوری اور عزت


میں حیرت سے سامنے دیکھ رھی تھی ۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی - یقین نہیں آرھا تھا جو میں دیکھ رھی ھوں وہ حقیقت ھے ۔

ھمارے گھر کے قریب ترک اٹالین اور جرمن خاندان رھتے ھیں اور سبھی دیکھنے میں کافی خوبصورت لگتے ھیں - ایک فمیلی مجھے بہت اچھی لگتی تھی-  ایک چار پانچ سال کا بیٹا اور ایک ڈیڑھ دو سال کی گول مٹول بیٹی وہ جہاں بھی جاتے  سب کی تعریفی نظریں ان کے پیچھے چلتی - شاپنگ مال میں کبھی کسی کلچر شو میں کبھی میلے میں جب بھی فیملی شمیتھ کو دیکھا بہت اچھے اسٹالش لباس میں دیکھا۔ عورت کے بارے میں سنا تھا کافی مغرور ھے ان کا گھر ھمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پہ تھا اکثر لان میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ھوئے نظر آتے تھے لان میں بچوں کے جھولے لگے ھوئے تھے دونوں میاں بیوی کے پاس اپنی اپنی مرسڈیز تھی ۔ پاکستان کے حساب سے ایک اچھی فیملی یا اچھے کھاتے پیتے عزت دارلوگوں کے پاس جو کچھ ھونا چاھئیے  وہ سب ان کے پاس تھا


ایک دن مجھے صبح سویرے کہیں جانا پڑا میں گاڑی میں انتظار کر رھی تھی سامنے کچرا اٹھانے والا ٹرالر آہستہ آہستہ چل رھا تھا ۔ اورنج رنگ کا مخصوص لباس پہنے بھاگتے ھوئے آدمی کو میں حیرت سے دیکھ رھی تھی ۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی - یقین نہیں آرھا تھا جو میں دیکھ رھی ھوں وہ حقیقت ھے ۔ وہ مسٹر شمیتھ تھا جس کی فیملی کو میں پیچھے چھ ماہ سے بہت سے مقامات پہ گھومتا ھوا دیکھ رھی تھی -

ایک عام کام کرنے والا ۔ بلکہ پاکستان کے حساب سے ایک گھٹیا کام کرنے والا انسان - کیا پاکستان میں ایک سڑک صاف کرنے والا - ایک گند اٹھانے والا عام انسان جو محنت سے کماتا ھے کسی سے بھیک نہیں مانگتا کام چھوٹا ھوتا ھے مگر وہ انسان چھوٹا نہیں ھوتا - کیا وہ بڑی بڑی محفلوں میں شامل ھو سکتا ھے ؟؟؟
کیا ایسے ھو سکتا ھے اس انسان کے لیے کسی کی نظروں میں حقارت نہ ھو ۔ وہ خود کو کسی محفل میں چھوٹا نہ سمجھے
کتنے دکھ کی بات ھے ھم کام کا معاوضہ بھی پورا نہیں دیتے ۔ اور وہ عزت ایک جس کا ایک انسان حق دار ھوتا ھے ھم اسے عزت بھی نہیں دیتے ھم کام کرواتے ھیں اور ایسے کرواتے ھیں جیسے ھم اس پہ احسان کر رھے ھیں - وہ انسان گنہگار نہیں ھوتا مگر ھمارے سامنے ایسے رھتا ھے نطریں جھکائے ھوئے شرمندہ شرمندہ

ھمارا مذھب غلاموں کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین کرتا ھے ۔ کام کرنے والے ھمارے غلام نہیں ھوتے مگر ھم ان کے ساتھ ویسا ھی سلوک کرتے ھیں جیسا زمانہء جہالیت میں لوگ کیا کرتے تھے نوکروں کو مارو انھیں ابلتا ھوا پانی ڈال کر جلا دو کوئ طوفان نہیں آتا ایک غریب کے مرنے سے کیا ھوگا - ایک کام کرنے والا مرے گا اس کی جگہ اور آ جائے گا

یکم مئ مزدوروں کا دن ان کے حقوق کا دن ۔ اس دن بھی مزدور مزدوری کرنے اور ڈھونڈنے میں گزار دیتے ھیں ۔ ان کی ضرورت کیا ھے بس جسم اور سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے دو وقت کی روٹی چاھئیے ھوتی ھے ۔ روٹی کے ساتھ انسان کو عزت بھی چاھئیے ھوتی ھے جو اسے ضرور دینی چاھئیے - کسی کی عزت ِ نفس کو نہیں مارنا چاھئیے ۔ کسی کو عزت دینے سے انسان کی اپنی عزت کم نہیں ھوتی نہ کوئ خزانہ خرچ کرنا پڑتا ھے ۔

2 comments:

  1. بہت تلخ ہیں بندہ ء مزدور کے اوقات

    ReplyDelete
  2. دیکھا جائے تو سوائے شہنشاہوں کے ہر آدمی مزدور ہو تا ہے ۔ اچھا کام ۔ بُرا کام ۔ گندا کام کی تفریق تنگ یا چھوٹے ذہن کی تخلیق ہے ۔ آدمی کتنا بیوقوف ہوتا ہے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر آدمی جسے سب سے زیادہ نجس مادہ سمجھتا ہے اُسے وہ روزانہ اپنے جسم سے اپنے ہاتھ کے ساتھ صاف کرتا ہے مگر جب دوسرے کو اُس کا پھینکا ہوا کم نجس مادہ یعنی کوڑا کرکٹ اُٹھاتے دیکھتا ہے تو اُسے کمین گردانتا ہے
    ہمارے دین نے کام کرنے والے کو عظیم ٹھہرایا ہے مگر ہند و پاکستان کے مسلمانوں کی کافی تعداد اپنے ذہن مسلمان کرنے سے قاصر رہی ۔ ہم لبیا میں رہے ہیں ۔ ہماری عمارت میں 12 اپارٹمنٹ تھے جن میں 8 پاکستانی اور 4 لیبی خاندان رہتے تھے ۔ 4 لیبی عورتیں ہفتے میں دو بار ساری عمارت کی سیڑھیاں اور نیچے کے برآمدے صابن سے دھوتی تھیں اور کچی زمین اور عمارت کے ساتھ والی سڑک پر جھاڑو لگاتی تھیں ۔ میری بیوی نے پاکستانی عورتوں کو مجبور کیا کہ ایک دن ہم دھوئیں اور ایک دن لیبی ۔ 6 پاکستانی عورتوں نے صرف ایک دن دھویا پھر گھر بیٹھ گئیں ۔ 2 عورتیں یعنی میری بیوی اور ہمارے سب سے سینئر افسر کی بیوی نے کام جاری رکھا ۔ اس پر لیبی عورتوں نے کہا ”آپ دونوں بہت کمزور ہیں آپ یہ کام نہ کریں”۔ جب وہ نہ مانیں تو پھر سب مل کر یہ کام کرتی رہیں
    میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو میرے ہموطن برطانیہ میں ٹائیلٹ صاف کر کے روزی کماتے ہیں جب وطن واپس آتے ہیں تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے

    ReplyDelete