Monday, May 30, 2011

میں نے پاکستان دیکھا






ٹی وی پہ غلطی سے اگر پاکستانی چینل لگا دیں تو آواز آئے گی دھماکے اتنے لوگ جان بحق ٹرین پٹری سے اتر گئ ۔ بس کھائ میں گر گئ ۔ ٹارگٹ کیلنگ کا کتنے لوگ نشانہ بنے بھوک کی وجہ سے کس نے خود کشی کی مہنگائ کا حال رشوت اور بے ایمانی کا راج - خوبصورت چہرے جدید تراش خراش کے لباس میں ملبوس مسکراتے ھوئے چہرے مجال ھے کبھی ھنسی خوشی کی خبر سنائ ھے پہلے لوگ کہا کرتے تھے روتے چہرے روتی خبر لاتے ھیں مگر اب مسکراتے ھوئے چہرے بھی دل جلانے والی خبر سناتے ھیں

انھیں خبروں کے بیچ میں ایک اچھی یہ ملی کہ بھائ کی شادی طے پائ ھے منگنی چھ ماہ پہلے ھوگئ تھی امی ابو کے ساتھ چھٹ پٹ پاکستان کا پراگرام بنا - ایک دوست نے سنا تو اس نے کہا آج کل کے حالات میں پاکستان جانا کوئ عقلمندی کی بات نہیں اس نے ذھنی حالت پہ شک کیا
ایک اور دوست نے کانپتے ھوئے دعا دی خوشی کے موقعے پہ جا رھی ھو
خدا خیریت رکھے شاید  چشم ِ تصور میں ھمیں کسی دھماکے میں جام ِ شہادت نوش فرماتے دیکھ کر کانپی تھی


خیر انھیں سوچوں کے ساتھ ایسی کی خبروں کو سنتے ھوئے پاکستان کے ائر پورٹ پہ اترے ائر پورٹ پہ ھر انسان بے ایمان رشوت خور لگا میں ھر ایک کو ایسے دیکھ رھی تھی جیسے پولیس والے کسی غریب چور کو دیکھتے ھیں مگر خیر رھی ائر پورٹ سے نکلتے ھر گاڑی پہ را موساد بلیک واٹر ایجنسیوں کی گاڑی کا گمان ھرتا رھا ھر جیکٹ پہننے والے خود کش حملہ آور کا گمان ھوتا رھا سارے رستے ایسے چوکنے ھو کر بیٹھے رھے جیسے کسی نے حملہ کیا تو آنکھوں سے ھی بم کو ناکارہ بنا دیں گے
گھر پہنچ کر سکون کا سانس لیا
اگلے دن شاپنگ کرنے نکلے تو ابو نے کہا جلدی آجانا حالات بہت خراب ھیں
ابھی گھر سےگئے ایک گھنٹہ ھی ھوا تھا ابو کی کال آگئ گھر کب آنا ھے حالات کا کوئ اعتبار نہیں اور یہ فقرے واپسی تک بار بار سننے کو ملے
پہلے دن ڈرتے ھوئے گزرا پھر شیر بن گئے کئ حادثات کے بعد بھی زندگی رواں دواں  ھے تین بار دھماکے کی ذرد میں آنے والی مون مارکیٹ بھی آباد  ھے لبرٹی چوک پہ رش اتنا تھا لگا نہیں یہ وہ پاکستان ھے جس کے لوگ بھوک کی وجہ سے اپنے بچے بیچ رھے ھیں -
ایک ایسا ملک جس کی ایک بڑی آبادی کی تنخواہ چھ ھزار ھے اسی پاکستان میں ایک وقت کا کھانا چھ ھزار سے زیادہ کھاتے ھوئے دیکھا
ننگ ڈھرنگ لوگوں کے بیچ آٹھ دس ھزار کے ایک کرتا پہنے ھوئے لوگ بھی تھے مہنگائ سے پریشان لوگ بھی دیکھے اور شاپنگ سنٹرز کا نا ختم ھونے والا سلسلہ بھی دیکھا

پاکستان کے اور فوج کے خلاف نعرے لگانے والوں کے ساتھ واہگہ پہ پاکستان زندہ باد پاکستانی شیر جوان زندہ باد کے نعرے بھی سنے

ایک اور تبدیلی جو نوٹ کی وہ یہ تھی اب بھکاری کم نظر آئے آپ گاڑی سگنل پہ کھڑی ھے کھڑکی سے ایک دم مردانہ ٹائپ زنانہ ھاتھ سامنے آئے گا آپ کو شاد و آباد رکھنے کی دعا میں حیران ھو کر دیکھ رھی تھی یہ کیسے بھکاری ھیں مگر ایسے بھکاری آپ کو ھر جگہ نظر آئیں گے
ان میں بھی شاید ذاتیں  ھوتی ھیں عام ذات کے ھیجڑے چوک اور سگنلوں پہ نظر آئیں گے ان سے بڑی ذات کے ھیجڑے دفتروں اور بڑی بلڈنگز میں  نظر آئیں گے مرد کے بچے گرمی سردی میں محنت مزدوری کرتے خون پسینہ  بہاتے نظر آتے ھیں اور سب سے اعلیٰ ذات کے ھیجڑے تھری سوٹ پہنے ٹائ لگائے قافلوں کی شکل میں چارٹر طیاروں میں یورپ اور امریکہ میں بھیک مانگتے نظر آتے ھیں ایسا مجھے ھی محسوس ھوا ھے
یا آپ نے بھی ایسا دیکھا ھے ؟؟؟؟

11 comments:

  1. دُکھ ہوا کہ نجانے پاکستانیوں نے ہی پاکستان کو کیا سمجھ لیا۔ جب آپ ہی ایسا سوچیں گی تو غیر مُلکیوں کا کیا تاثر ہوگا :( خیر۔۔۔۔ شائید اس میں بھی سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہے۔
    واپس خیریت سے تو آگئی نا؟ سب اچھا رہا نا؟ بھائی کی شادی کب ہورہی ہے ماشاءاللہ۔
    دوسرا دُکھ آپکے اس نئے بلاگ کو دیکھ کر ہوا۔ نہ کوئی تبصرہ، نہ کوئی ٹریفک۔۔۔ ورنہ تو تبصروں کی بھرمار ہوتی تھی یہاں۔ کیا اُردو سیارہ میں ابھی تک رجسٹر نہیں کروایا؟

    ReplyDelete
  2. پہلی بات يہ کہ تبصرہ کرنے کيلئے نام ۔ يو آر ايل والی آپشن نہيں ہے اسلئے غلط پہچان سے تبصرہ کر رہا ہوں
    http://www.theajmals.com
    مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ ايئر پورٹ سے اپنی رہائشگاہ تک کا سفر ايک بہترين احساس ہوتا ہے جو غارت ہو گيا ۔
    آپ زندہ دلانِ پاکستان کے شہر ميں پھر رہی تھيں اور لطف اندوز نہ ہو سکيں ۔ لاہور ميں اگر موٹر سائيکل۔ کار اوقر دوسری گاڑيان چلانے والے کچھ اخلاق سيکھ ليں تو لاہور جيسے لوگ کہيں نہيں پائے جاتے ۔ ہمدرد ۔ مدد کيلئے تيار ۔ لاہور ميں ايسے دولتمند بھی پائے جاتے ہيں جو اپنی کمائی ميں غرباء کو بھی حصہ دار بناتے ہيں ۔ صرف علی ہجويری رحمت اللہ عليہ کے مزار پر ہی نہيں دوسری کئی جگہوں ميں بھی غرباء ميں روزانہ اچھا کھانا تقسيم کيا جاتا ہے ۔ لاہور کے زندہ دلان ہی ايسا حوصلہ رکھتے ہيں کہ اپنی جان کو خطرے ميں ڈالتے ہوئے ريمنڈ ڈيوس کو گھير ليا اور پوليس کے حوالے کر ديا
    ميں لاہور کا رہنے والا نہيں ہوں ۔ تعليم 1962ء تک لاہور ميں حاصل کی اور پھر پونے دو سال وہان رہنے کے بعد 15 فرری 2011ء کو واپس اسلام آباد آ گيا ہوں

    ReplyDelete
  3. مردانہ ٹائپ زنانہ ھاتھ۔۔۔

    بھئی کمال مشاہدہ اور انداز بیان ہے اپ کا۔

    اچھا پلیز کمنٹس میں
    Name/URL
    والا آپشن بھی دستیاب کر دیں۔ عین نوازش ہو گی۔
    شکریہ

    ReplyDelete
  4. مبارک ہو کہ آپ نے پاکستان دیکھ لیا

    ReplyDelete
  5. سلام عادل بھیا


    یورپیئن میڈیا ھو یا پاکستانی میڈیا پاکستان کے بارے میں ایک سی خبریں آتی ھیں قتل و غارت اور دھشت گردی - غیر ملکیوں کے تاثرات بھی ایسے ھی ھوتے ھونگے پاکستان آنے پہ ۔ اب کوب آتا ھے پاکستان سیاحت کے لیے یا کاروبار کے لیے پہلے کی نسبت بہت کم لوگ - ورنہ پاکستان میں زندگی ابھی بھی ویسی ھی ھے شادی ھوگی واپس بھی خیریت سے آگئ
    دوسرا جو بلاگ کا دکھ ھے وہ بلاگ تو گیا یہ بلاگ سیارہ پہ آیا ھے یہ پہلی تحریر ھے اگر تحریر کسی قابل ھوئ تو تبصرے بھی ھوں گے ابھی تک لوگوں کی لسٹ میں میرا پہلا بلاگ ایڈ ھے
    تبصرہ کرنے کا شکریہ ------

    ReplyDelete
  6. سلام اجمل جی ویلکم اس بلاگ پہ


    پہلے نام ۔ يو آر ايل والا آپشن تھا اب نظر نہیں آرہا دیکھتی ھوں ابھی بلاگ سپاٹ کہ سمجھ رھی ھوں کچھ وقت لگے گا سمجھنے میں ۔۔۔۔۔۔۔
    پاکستان میں بہت انجوانے کیا ۔ بہت یاد آتا ھے سارا گزارا ھوا وقت اگر ابھی مجھے کوئ کہے چلو پاکستان تو میں ایک منٹ بھی نہیں لگاؤں گی سوچنے
    کے لیے فوراً تیار ھو جاؤن گی جو تاثرات بیان کیے ھیں وہ ھیں جو یہاں خبریں سننے کے بعد بنے تھے -
    لاہور کے دن تو زندہ ھوتے ھیں راتیں بھی خاموش نہیں ھوتیں ابھی بھی رات گئے تک شاپنگ سنٹرز کھولے ھوتے ھیں ریسٹورینٹ بھی کھولے ھوتے ھیں
    تبصرہ کرنے کا شکریہ

    ReplyDelete
  7. سلام احمد عرفان ویلکم اور شکریہ تشریف لانے اور تبصرے کے لیے

    نام اور یو آر ایل کا آپشن مجھے بھی نظر نہیں آرہا ابھی سیٹینگ چیک کرتی ھوں ۔۔۔۔۔۔



    سلام کاشف نصیر ویلکم اور شکریہ تبصرہ کرنے کا


    جانا کہاں ھے جہاں بھی جاؤ لوٹ کر پاکستان جانا ھے ۔
    امن کا مسلہ ھے مہنگائ بھی ھے فارن ممالک سے جانے والوں کو اس لیے محسوس نہیں ھوتی پہلے ھزار یورو لے کر جاتے تھے تو 65 ھزار ملتے تھے ان ایک لاکھ بارہ ھزار

    ReplyDelete
  8. میں نے اپنی بلاگ رول میں آپکا لنک اپڈیٹ تو کر لیا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آئی آپ ورڈ پریس سے بلاگ سپاٹ پر کیوں منتقل ہو گئی ہیں۔ ورڈ پریس ایک بہتر بلاگنگ پلیٹ فارم ہے۔ شاید وہ والا بلاگ کسی طور ڈیلیٹ وغیرہ ہو گیا تھا۔ کیا ہوا تھا اسے؟

    ReplyDelete
  9. سلام احمد عرفان


    بلاگ رول میں شامل کرنے کا شکریہ ۔ میرا بلاگ ورڈ پریس ڈاٹ پی کے پہ تھا
    اور شاید پی کے نے کچھ غلط پی لیا تھا اس لیے پورے کا پورا ڈوب گیا ۔پہلے تو سوچا اچھا ھوا بلاگنگ سے جان چھوٹی ۔مگر جو بلاگ پہ لکھتی ھوں وہ گھر میں کوئ سنتا نہیں اس لیے یہ بلاگ بنایا ھے

    ReplyDelete
  10. بلاگ رول میں تو پہلے سے ہی تھا آپ کا بلاگ۔ اب بس اس کا لنک تبدیل کر کے یہ والا کر دیا ہے۔
    میں سمجھ رہا تھا آپ کا پہلا بلاگ ورڈ پریس ڈاٹ کام پر تھا۔ اچھا وہ ڈاٹ پی کے پر تھا۔ پی کے نے تو واقعئی کچھ غلط پی لیا تھا۔ تبھی جعفر نے بھی ڈومین بدل لیا ہے۔ اب سمجھا۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے بھی کوشش کی تھی پی کے پر جانے کی۔ شکر ہے نہیں جا سکا تھا۔

    اور یہ بلاگنگ سے جان چھڑانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بلاگرز میں سے اکثر گلے پڑا ڈھول ہی بجا رہے ہوتے ہیں اور بلاگ ضائع ہو جانے پر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ لیکن کتھارسس کا یہ عظیم پلیٹ فارم ان کو پھر سے واپس لے ہی اتا ہے۔

    ReplyDelete
  11. سلام احمد عرفان ----------


    بلاگنگ کرنے کا بعد وہ حال ھوتا ھے کمبل نہیں چھوڑتا ۔
    بلاگ کبھی ڈائری ھے تو کبھی ھائیڈ پارک - کوئ سنے یا نہ سنے اپنی سنا سکتے ھیں -
    بہت بار لکھنا چھوڑا دیا یہ سوچ کر کیا فائدہ لکھنے کا کچھ عرصے کے بعد پھر لکھنا شروع کر دیا کہ نقصان بھی کیا ھے
    لگتا ھے یہ مرتے دم تک سلسلہ چلتا رھے گا ۔۔۔۔

    ReplyDelete